وہ جو دولت کے ہاتھوں خرچ ہو گیا

6  ستمبر‬‮  2015

رہ گئے اور یہ وہیں انتقال فرما گئے‘ ڈاکٹر صاحب کا انتقال دسمبر 1947ءمیں لندن میں ہوا‘ ان کی بڑی صاحبزادی نواب بیگم کی شادی ڈاکٹر قیوم پاشا کے ساتھ ہوئی‘ ڈاکٹر قیوم پاشا وہ شخصیت تھے جنہیں انگریز سرکار نے پیر صاحب پگاڑا (سید شاہ مردان شاہ) اور ان کے چھوٹے بھائی نادر شاہ کا اتالیق مقرر کیا تھا‘ دوسری صاحبزادی ارشاد فاطمہ کی شادی ایڈمرل یو اے سعید کے ساتھ ہوئی‘ ایڈمرل سعید جنرل یحییٰ خان کے قریبی دوست تھے‘ یہ پاکستان میں نیشنل شپنگ کارپوریشن کے بانی بھی تھے‘ تیسری صاحبزادی ڈاکٹر اعجاز فاطمہ کی شادی ڈاکٹر تجمل حسین کے ساتھ ہوئی‘ ڈاکٹر تجمل پنجابی تھے‘ یہ ڈاکٹر اعجاز فاطمہ کے کلاس فیلو تھے‘ یہ دونوں انتہائی نفیس‘ پڑھے لکھے اور درد دل رکھنے والے لوگ تھے‘ ان کے چار بچے تھے‘ دوبیٹے اور دو بیٹیاں۔ دو بیٹے اور ایک بیٹی ڈاکٹر ہیں‘ بیٹی کراچی کی مشہور گائنا کالوجسٹ ہیں‘ دوسری بیٹی ڈاکٹر ضیاءالدین ہسپتال کی ایڈمنسٹریٹر ہیں جبکہ ایک بیٹے کا نام ڈاکٹر عاصم حسین ہے اور یہ اس وقت کرپشن کے سنگین الزامات بھگت رہے ہیں۔
ہم اب شجرئہ نسب کو یہاں روک کر کہانی کے تین کرداروں ڈاکٹر ضیاءالدین‘ ڈاکٹر اعجاز فاطمہ اور ڈاکٹر عاصم حسین کو ڈسکس کرتے ہیں‘ سر ڈاکٹر ضیاءالدین احمد کمال شخصیت کے مالک تھے‘ میں آپ کو ڈاکٹر صاحب کا تعلیمی بیک گراﺅنڈ گزشتہ کالم ”آپ نے کیا پایا‘کیا کمایا“ میں گوش گزار کر چکا ہوں‘ میں آج ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کے تین پہلو سامنے رکھتا ہوں‘ پاکستان جب ناگزیر ہو گیا تو ڈاکٹر صاحب نے محسوس کیا ہمارے نئے ملک کو بیورو کریٹس کی ضرورت ہو گی جبکہ مسلمانوں میں ڈگری ہولڈر بہت کم ہیں‘ ڈاکٹر صاحب نے اس کا دلچسپ حل نکالا‘ انہوں نے علی گڑھ یونیورسٹی میں سپلی مینٹری امتحانات شروع کرا دیئے‘ پاکستان بننے سے قبل علی گڑھ یونیورسٹی نے تین سپلی مینٹری امتحانات لئے اور ان امتحانات سے ہزاروں مسلمان گریجویٹ نکلے‘ یہ گریجویٹ بعد ازاں پاکستان کی سول بیورو کریسی کا حصہ بنے‘ ڈاکٹر صاحب اگر یہ اینی شیٹو نہ لیتے تو نوزائیدہ پاکستان کو کلرک تک نہ ملتے اور یوں یہ ملک جنم لیتے ہی بیورو کریٹک کرائسس کا شکار ہو جاتا‘ ڈاکٹر صاحب کو اپنی نیند پر بے انتہا کنٹرول تھا‘ یہ بیٹھے بیٹھے کہتے تھے‘ میں اب ذرا آٹھ منٹ کےلئے سستانے لگا ہوں اور وہ یہ فقرہ کہتے کہتے گہری نیند میں چلے جاتے اور ٹھیک آٹھ منٹ بعد بیدار ہو جاتے‘ وہ ذہنی طور پر ہمہ وقت مگن رہتے تھے‘ ان کے بارے میں ایک واقعہ مشہور تھا‘ وہ ایک دن سونے کےلئے کمرے میں گئے‘ اپنی چھڑی کو بستر پر لٹا دیا اور خود دروازے کے ساتھ کھڑے ہو کر سو گئے‘ نیند پوری کر کے بیدار ہوئے تو خود کو دروازے کے ساتھ اور چھڑی کو بستر پر دیکھ کر حیران رہ گئے۔ ڈاکٹر اعجاز فاطمہ بھی اپنے والد کی طرح درد دل رکھنے والی خاتون ہیں‘ میاں بیوی نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد ناظم آباد میں ہسپتال



کالم



سرمایہ منتوں سے نہیں آتا


آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…