سی ایم لطیف جیسے لوگ

9  اگست‬‮  2015

والد نے ان کا نام محمد لطیف رکھا‘ وہ بڑے ہو کر چودھری محمد لطیف ہو گئے لیکن دنیا انہیں ”سی ایم لطیف“ کے نام سے جانتی تھی‘ وہ پاکستان کے پہلے وژنری انڈسٹریلسٹ تھے اور انڈسٹریلسٹ بھی ایسے کہ چین کے وزیراعظم چو این لائی‘ شام کے بادشاہ حافظ الاسد اور تھائی لینڈ کے بادشاہ ان کی فیکٹری دیکھنے کےلئے لاہور آتے تھے‘ چو این لائی ان کی فیکٹری‘ ان کے بزنس ماڈل اور ان کے انتظامی اصولوں کے باقاعدہ نقشے بنوا کر چین لے کر گئے اور وہاں اس ماڈل پر فیکٹریاں لگوائیں‘ سی ایم لطیف کی مہارت سے شام‘ تھائی لینڈ‘ ملائیشیا اور جرمنی تک نے فائدہ اٹھایا‘ وہ حقیقتاً ایک وژنری بزنس مین تھے‘ وہ مشرقی پنجاب کی تحصیل بٹالہ میں پیدا ہوئے‘ والد مہر میران بخش اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلانا چاہتے تھے لیکن وہ لطیف صاحب کے بچپن میں فوت ہو گئے‘ لطیف صاحب نے والد کی خواہش کے مطابق اعلیٰ تعلیم حاصل کی‘ یہ 1930ءمیں مکینیکل انجینئر بنے اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے دو کمروں اور ایک ورانڈے میں اپنی پہلی مل لگائی‘ یہ صابن بناتے تھے‘ ان کے چھوٹے بھائی محمد صدیق چودھری بھی ان کے ساتھ تھے‘ صدیق صاحب نے بعد ازاں نیوی جوائن کی اور یہ قیام پاکستان کے بعد 1953ءسے 1959ءتک پاکستان نیوی کے پہلے مسلمان اور مقامی کمانڈر انچیف رہے‘ لطیف اور صدیق دونوں نے دن رات کام کیا اور ان کی فیکٹری چل پڑی‘ یہ ہندو اکثریتی علاقے میں مسلمانوں کی پہلی انڈسٹری تھی‘ یہ صابن فیکٹری کے بعد لوہے کے کاروبار میں داخل ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے علاقے میں چھا گئے اور لاکھوں میں کھیلنے لگے‘ پاکستان بنا تو ان کے پاس دو آپشن تھے‘ یہ اپنے کاروبار کے ساتھ ہندوستان میں رہ جاتے یا یہ کاروبار‘ زمین جائیداد اور بینک بیلنس کی قربانی دے کر پاکستان آ جاتے‘ سی ایم لطیف نے دوسرا آپشن پسند کیا‘ یہ بٹالہ سے لاہور آ گئے‘ لاہور اور بٹالہ کے درمیان 53 کلو میٹر کا فاصلہ ہے لیکن اگر حقیقی طور پر دیکھا جائے تو یہ دونوں شہر دو دنیاﺅں کے فاصلے پر آباد ہیں‘ آزادی نے سی ایم لطیف کا سب کچھ لے لیا‘ یہ بٹالہ سے خالی ہاتھ نکلے اور خالی ہاتھ لاہور پہنچے‘ بٹالہ میں ان کی فیکٹریوں کا کیا سٹیٹس تھا ؟آپ اس کا اندازہ صرف اس حقیقت سے لگا لیجئے‘ ہندوﺅں اور سکھوں نے ان کی ملوں پر قبضہ کیا‘ کاروبار کو آگے بڑھایا اور آج بٹالہ لوہے میں بھارتی پنجاب کا سب سے بڑا صنعتی زون ہے‘ سی ایم لطیف بہرحال پاکستان آئے اور 1947ءمیں نئے سرے سے کاروبار شروع کر دیا‘ انہوں نے لاہور میں بٹالہ انجینئرنگ کمپنی کے نام سے ادارہ بنایا‘ یہ ادارہ آنے والے دنوں میں ”بیکو“ کے نام سے مشہور ہوا‘ بیکو نے پاکستان میں صنعت کاری کی بنیاد رکھی‘ لوگ زراعت سے صنعت کی طرف منتقل ہوئے اور ملک میں دھڑا دھڑ فیکٹریاں لگنے لگیں۔
ملک کے نئے صنعت کاروں میں میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے والد میاں شریف بھی شامل تھے‘ میاں شریف سات بھائی تھے‘ یہ لوگ امرتسر کے مضافات میں ایک چھوٹے سے گاﺅں ”جاتی امرا“ کے رہنے والے تھے‘ میاں شریف کے والد میاں رمضان حکیم تھے‘ یہ سکھوں کے گاﺅں میں اکیلا مسلمان گھرانہ تھا‘ میاں برکت خاندان کے سب سے بڑے بیٹے تھے‘ یہ میاں رمضان کی پہلی بیگم کی اولاد تھے‘ یہ بیگم فوت ہو گئی‘ میاں رمضان نے دوسری شادی کی‘ دوسری بیگم سے چھ بیٹے اور ایک بیٹی پیدا ہوئی‘ میاں برکت اور میاں شفیع سے گھر کی غربت دیکھی نہ گئی‘ یہ دونوں جاتی امرا سے نکلے‘ لاہور آئے اور ریلوے روڈ پر لوہے کی ایک بھٹی پر نوکری کر لی‘ یہ دونوں بھائی سارا دن لوہا کوٹتے تھے‘ شام کو انہیں ایک روپیہ ملتا تھا‘ یہ اس میں سے دو وقت کی روٹی کے پیسے رکھ کر باقی رقم گاﺅں بھجوا دیتے تھے‘ خاندان نے میاں شریف کو سکول داخل کرا دیا‘ میاں شریف نے جاتی امرا سے چار کلو میٹر دور ”نیویں سرلی“ سے پرائمری تک تعلیم حاصل کی‘ لاہور آئے اور بھائیوں کے ساتھ مزدوری شروع کر دی‘ یہ صبح مسلم ہائی سکول رام گلی جاتے تھے اور شام کو لوہا کوٹتے تھے‘ یہ میٹرک کے بعد اسلامیہ کالج ریلوے روڈ میں داخل ہو گئے‘ غربت اور تعلیم کا شوق دونوں اتنے زیادہ تھے کہ یہ کالج میں ”فیس معافی“ کی درخواست دینے پر مجبور ہو گئے اور اساتذہ نے ان کے سخت ہاتھ دیکھ کر انہیں ”ہوم ورک“ سے معافی دے دی‘ میاں شریف نے مزدوری کر کے پیسے جمع کئے‘ حاجی فیروز دین سے 310 میں بھٹی خریدی‘ چچا سے پانچ سو روپے ادھار لئے اور اپنا کام شروع کر دیا‘ کام چل پڑا تو بھائی بھی ساتھ شامل ہو گئے‘ 1945ءمیں ایک انگریز گاہک نے کراچی کے ایک ایسے انگریز کا ذکر کیا جو لوہے کے سکریپ سے کاسٹ آئرن (دیگی لوہا) بنانے کا ماہر تھا‘ میاں شریف کراچی پہنچے‘ انگریز سے ملے اور اسے اس کے منہ مانگے معاوضے پر ملازم رکھ لیا‘ وہ انگریز لاہور آیا اور ہاتھوں سے لوہا کوٹنے والے بھائی ملک کے بڑے صنعت کار اور لوہا پگھلانے والی بھٹی ”اتفاق گروپ“ بن گئی‘ 1960ءتک لوہے کے کاروبار میں دو بڑے گروپ تھے‘ بیکو اور اتفاق۔ سی ایم لطیف زیادہ پڑھے لکھے اور زیادہ منظم تھے چنانچہ ان کا گروپ پہلے نمبر پر تھا جبکہ اتفاق گروپ دوسرے نمبر پر آتا تھا۔
سی ایم لطیف نے ملک میں بے شمار نئی چیزیں متعارف کرائیں‘ یہ سائیکل سے لے کر جہازوں کے پرزے تک بناتے تھے‘ بیکو گروپ یورپ سے لے کر چین اور جاپان تک مشہور تھا‘ جاپان اور چین کی حکومتیں اپنے لوگوں کو ٹریننگ کےلئے بیکو بھیجتی تھیں لیکن پھر یہ دونوں گروپ سیاسی شب خون کا شکار ہو گئے‘ ذوالفقار علی بھٹو نے 1970ءمیں الیکشن لڑا‘ علامہ اقبال کے صاحبزادے جاوید اقبال ان کے مد مقابل تھے‘ میاں شریف جاوید اقبال کے مدد گار تھے‘ سی ایم لطیف نے بھی ذوالفقار علی بھٹو کو فنڈ دینے سے انکار کر دیا‘ 1971ءمیں پاکستان ٹوٹ گیا اور ذوالفقار علی بھٹو موجودہ پاکستان کے صدر بن گئے‘ بھٹو نے 1972ءمیں ملک کے تما م صنعتی گروپ قومیا لئے یوں صدر کے ایک حکم سے ملک بھر کے تمام بڑے صنعت کار فٹ پاتھ پر آ گئے‘ ان میں میاں شریف بھی شامل تھے اور سی ایم لطیف بھی۔ میاں شریف کے پاس اردو بازار کے ایک بند برف خانے اور ایک کار کے سوا کچھ نہیں تھا‘ سات بھائیوں کے گھروں سے پیسے اور زیورات جمع کئے گئے‘ بیچے گئے تو صرف نوے ہزار روپے اکٹھے ہوئے‘ سی ایم لطیف کی صورت حال زیادہ ابتر تھی‘ آپ تصور کیجئے‘ ایک شخص جس نے 1932ءمیں بٹالہ میں کام شروع کیا اور وہ جب وہاں سیٹھ بنا تو اس کا سارا اثاثہ آزادی نے لوٹ لیا‘ وہ لٹا پٹا پاکستان آیا‘ اس نے دوبارہ کام شروع کیا‘ ایک ایک اینٹ رکھ کر ایسی عمارت کھڑی کی جسے دیکھنے کےلئے دنیا کے ان ملکوں کے حکمران آتے تھے جنہوں نے مستقبل میں ” اکنامک پاورز“ بننا تھا لیکن پھر ایک رات اس کا سارا اثاثہ اس ملک نے چھین لیا جس کےلئے اس نے 1947ءمیں اپنا سب کچھ قربان کر دیا تھا‘ آپ تصور کیجئے‘ اس شخص کی ذہنی صورتحال کیا ہو گی؟ میاں شریف اور سی ایم لطیف دونوں اس صورتحال کا شکار ہو گئے‘ میاں شریف نے ہار نہ مانی‘ انہوں نے اردو بازار کے برف خانے سے دوبارہ کاروبار شروع کیا‘ گرینڈ لائیز بینک کے منیجر نے ان پر اعتبار کیا‘ انہیں قرضہ دے دیا اور یوں یہ دوبارہ قدموں پر کھڑے ہو گئے لیکن سی ایم لطیف حوصلہ ہار گئے‘ وہ پاکستان سے نقل مکانی کر گئے‘ وہ جرمنی گئے اور جرمنی کے ایک چھوٹے سے گاﺅں میں زندگی گزار دی‘ انہوں نے دوبارہ کوئی کمپنی بنائی‘ کوئی کاروبار کیا اور نہ ہی کوئی فیکٹری لگائی‘ وہ طویل العمر تھے‘ ان کا انتقال 2004ءمیں 97 سال کی عمر میں ہوا‘ وہ باقی زندگی صرف باغبانی کرتے رہے‘ ان کا کہنا تھا‘ دنیا کا کوئی شخص مجھ سے پودے اور پھول نہیں چھین سکتا‘ جنرل ضیاءالحق نے 1977ءمیں انہیں بیکو واپس لینے کی درخواست کی لیکن سی ایم لطیف نے معذرت کر لی‘ 1972ءمیں جب بھٹو نے سی ایم لطیف سے بیکو چھینی تھی‘ اس وقت اس فیکٹری میں چھ ہزار ملازمین تھے اور یہ اربوں روپے سالانہ کا کاروبار کرتی تھی لیکن یہ فیکٹری بعد ازاں زوال کا قبرستان بن گئی‘ حکومت نے اس کا نام بیکو سے پیکو کر دیا تھا‘ پیکو نے 1998ءتک 761 ارب روپے کا نقصان کیا‘ یہ ہر سال حکومت کا جی بھر کر خون چوستی تھی‘ بیکو کا ہیڈ آفس بادامی باغ میں تھا‘ یہ علاقہ کبھی پاکستانی صنعت کا لالہ زار ہوتا تھا اور دنیا بھر سے آنے والے سربراہان مملکت کو پاکستان کی ترقی دکھانے کےلئے خصوصی طور پر بادامی باغ لایا جاتا تھا لیکن حکومت کی ایک غلط پالیسی اور ہماری سماجی نفسیات میں موجود حسد اور خودکشی کے جذبے نے اس لالہ زار کو صنعت کا قبرستان بنا دیا اور لوگ نہ صرف بیکو کی اینٹیں تک اکھاڑ کر لے گئے بلکہ انہوں نے بنیادوں اور چھتوں کا سریا تک نکال کر بیچ دیا اور یوں پاکستان کا سب سے بڑا وژنری صنعت کار اور ملک کی وہ صنعت جس نے جاپان اور چین کو صنعت کاری کا درس دیا تھا‘ وہ تاریخ کا سیاہ باب بن کر رہ گئی‘ آج حالت یہ ہے‘ وہ لوگ جن کے لیڈر پاکستان سے صنعت کاری کے نقشے حاصل کرتے تھے‘ وہ لوگ سی ایم لطیف کے ملک کو بلڈوزر سے لے کر ٹریکٹر اور ٹونٹی سے لے کر ہتھوڑی تک بیچتے ہیں اور سی ایم لطیف کی قوم یہ ساراسامان خرید کر پاک چین دوستی زندہ باد کے نعرے لگاتی ہے ۔
ہم کیا لوگ ہیں‘ ہم 1972ءمیں ملک کو کاروبار اور صنعت کاقبرستان بنانے والوں کی برسیاں مناتے ہیں لیکن ہمیں سی ایم لطیف جیسے لوگوں کی قبروں کا نشان معلوم ہے اور نہ ہی یہ معلوم ہے یہ زندگی کی آخری سانس تک پاکستان کو کس نظر سے دیکھتے رہے۔ یہ المیہ اگر صرف یہاں تک رہتا تو شاید ہم سنبھل جاتے‘شاید ہمارا ڈھلوان پر سفر رک جاتا لیکن ہم نے اب ڈھلوان پر گریس بھی لگانا شروع کر دی ہے ‘ہم بیس کروڑ لوگوں کی قوم ہیں لیکن ارب پتی صرف دو ہیں ‘ میاں منشاءاور ملک ریاض۔ یہ دونوں بھی سی ایم لطیف جیسی کہانیاں ہیں ‘ آپ کبھی ان کی جدو جہد کی کہانی سنیں‘ آپ اپنے آنسو نہیں روک سکیں گے‘ یہ دونوں بھی آج کل سی ایم لطیف کی طرح اپنی قوم‘ اپنے لوگوں سے پوچھ رہے ہیں ”ہمارا قصور کیا ہے ؟ کیا ہم ملک میںکام نہ کرتے ‘ہم ترقی نہ کرتے ؟کیا کام کرنا‘ کیا ترقی کرنا جرم ہے؟“یہ پوچھ رہے ہیں”ہم آج بھی ملک میں ہیں‘ ہم آج بھی دس‘ پندرہ‘ بیس لاکھ لوگوں کو روزگار دے رہے ہیں‘ ہم آج بھی کام کر رہے ہیں ‘ کیا ہم کام چھوڑ دیں‘ کیاہم بھی سیاستدانوں ‘بیوروکریٹس اور جرنیلوں کی طرح دوبئی ‘لندن اور نیویارک میں بیٹھ جائیں ‘کیا ہم بھی ایان علی بن جائیں ‘کیا ہم بھی اپنا پیسہ لیں اور ملک سے روانہ ہو جائیں؟“لیکن کوئی شخص ان کے سوالوں کا جواب نہیں دے رہا‘ ملک ریاض نے چند دن قبل ایک ویڈیو ریلیز کی‘ اس ویڈیو میں ایک ریٹائرڈکرنل ملک ریاض سے پانچ کروڑ روپے لے رہا تھا‘ یہ شخص عدالتوں میں درخواستیں دیتا ہے اور پھر درخواستیں واپس لینے کا وعدہ کرکے پیسے بٹورتا ہے‘ یہ ویڈیو22جولائی کو ریلیز ہوئی لیکن آج تک کسی ادارے ‘کسی محکمے کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی‘یہ بلیک میلر آج بھی ملک کی اعلیٰ ترین عدالتوں میں ملک ریاض کے خلاف مدعی ہے‘ ہم اتنے بے حس کیوں ہیں ‘ ہم اس ملک میں کام کرنے والے لوگوں کو سی ایم لطیف کی طرح دوسرے ملکوں میں کیوں دیکھنا چاہتے ہیں؟ ہماری نظروںمیں کام کرنے والا ہر شخص برا اور پرفارم کرنے والا ہر شخص مجرم کیوں ہے ؟یہ لوگ برے ہونگے‘یہ مجرم بھی ہوں گے لیکن آپ ان کا جرم‘ ان کی برائی تو بتائیں اور اگر یہ برائی ‘یہ جرم ثابت ہو جائے تو آپ انہیں سزا بھی دیں مگر انہیں ذلیل کرنا تو بند کر دیں‘ انہیں بلیک میلروں سے بچالیں۔
مجھے اکثر اوقات محسوس ہوتا ہے‘ ہم اس ملک میں کام کرنے والوں اور ترقی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے ‘ وہ لوگ جو ریاست کے داماد بن کر پوری زندگی گزار دیتے ہیں‘ وہ ہمارے ہیرو ہوتے ہیں اور جو لوگ ملک بھر کے پیاسوں کے لیے کنوئیں کھودتے ہیں ‘ہم جب تک سی ایم لطیف کی طرح انہیں کنوئیں میں نہ پھینک دیں‘ ہمیں اس وقت تک تسلی نہیں ہوتی‘ ہم محسنوں کو ذلیل کرنے والے لوگ ہیں‘ ہم نے اس ملک میں ملک بنانے والوں کو بخشا ‘ ملک بچانے والوں کو بخشا اور نہ ہی ملک سنوارنے والوں کو بخشا‘ ہم نے صرف ملک توڑنے والوں کو سلام کیا۔



کالم



شاہ ایران کے محلات


ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…

مشہد میں دو دن (آخری حصہ)

ہم اس کے بعد حرم امام رضاؒ کی طرف نکل گئے‘ حضرت…

مشہد میں دو دن (دوم)

فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…