وہ کیا ہیں اور ہم کیاہیں

24  جولائی  2015

وہ دسمبر 1998ءکی ایک سرد رات تھی‘ وہ اپنی سرکاری رہائش گاہ میں سو رہا تھا‘ خوابوں کا سلسلہ جاری تھا‘ خواب فوکس ہوتے جا رہے تھے یہاں تک کہ اس نے دیکھا وہ ایک ایسے مصنوعی سیارے پر بیٹھا ہے جو زمین کے انتہائی قریب ہے اور وہ اس جگہ سے کھلی آنکھوں سے پوری زمین دیکھ سکتا ہے‘ زمین قطب جنوبی سے قطب شمالی تک کھلی کتاب کی طرح اس کے سامنے رکھی تھی اور وہ کرہ ارض پر پھیلے ایک ایک دریا‘ ایک ایک ندی‘ ایک ایک شہر اور ایک ایک کھیت کو دیکھ رہا تھا‘ وہ ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا‘ کمرے میں گھپ اندھیرا تھا‘ وہ اس اندھیرے میں اپنے بیڈ پر پریشان بیٹھا تھا‘ نیند میں دیکھا خواب ابھی تک اس کے دماغ کی سکرین پر زندہ تھا‘ اس نے لیمپ جلایا‘ ڈائری اٹھائی‘ زمین کا نقشہ بنایا‘ زمین کے اوپر مصنوعی سیارہ بنایا اور سیارے کے نیچے کیمرے کا نشان بنا دیا‘ اس نے گھڑی دیکھی‘ رات کے تین بجے تھے‘ وہ دوبارہ سو گیا‘ اگلی صبح انقلاب کی صبح تھی‘ وہ گھر سے سیدھا ناسا کے دفتر گیا‘ ناسا کے ڈائریکٹر سے ملا‘ اپنا خواب سنایا‘ نقشہ دکھایا اور اس سے پوچھا ” کیا یہ ممکن ہے‘ ہم فضا میں اس زاویئے پر سیٹلائیٹ بھجوائیں اور سیٹلائیٹ پوری زمین کی تصویر بنا کر نیچے بھیج دے“ ڈائریکٹر نے زمین کی ہیئت اور زاویئے کا جائزہ لے کر جواب دیا ” یس ایل گور یہ ممکن ہے“ ڈائریکٹر کا کہنا تھا ” ہمیں اگر سو ملین ڈالر مل جائیں تو ہم یہ منصوبہ تین سال میں مکمل کر سکتے ہیں“ اس نے ڈائریکٹر کے ساتھ ہاتھ ملایا اور اپنے دفتر آ گیا‘ وہ بہت جذباتی ہو رہا تھا‘ اسے جذباتی ہونا بھی چاہیے تھا‘ کیوں؟ کیونکہ اس وقت تک کسی کیمرے نے پوری زمین کی تصویر نہیں کھینچی تھی‘ انسان کے پاس زمین کی صرف ایک تصویر تھی‘ یہ تصویر 1972ءمیں اپالو 17 سے اس وقت لی گئی جب وہ چاند سے زمین کی طرف واپس آ رہا تھا لیکن وہ تصویر بھی زیادہ واضح نہیں تھی‘ ہمارے نیوی گیشن سسٹم میں جتنی تصویریں موجود ہیں‘ یہ چھوٹی چھوٹی تصویریں جوڑ کر بنائی گئی ہیں‘ انسان ہزاروں سال سے زمین کی ایک ایسی تصویر کا منتظر ہے جس کے ذریعے وہ کرہ ارض کو بھی دیکھ سکے اور زمین پر وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں کا مشاہدہ بھی کر سکے‘ انسان صدیوں سے یہ کوشش کر رہا ہے‘ مصنوعی سیاروں کے دور میں اس کوشش میں اضافہ ہو گیا لیکن ماہرین کو کوئی ایسا زاویہ نہیں مل رہا تھا جس سے پوری زمین ان کے سامنے آ سکے اور کوئی ایسا کیمرا بھی ایجاد نہیں ہوا تھا جس کے ذریعے دنیا کو ایک ”کلک“ میں محفوظ کیا جا سکے‘ قدرت نے پھر خواب کے ذریعے اسے یہ زاویہ بھی دکھا دیا اور پورا منصوبہ بھی سمجھا دیا‘ وہ جذباتی تھا‘ وہ جلد سے جلد اس منصوبے کو مکمل دیکھنا چاہتا تھا‘ وہ صدر کے پاس گیا اور اس تاریخ ساز منصوبے کی اجازت لے لی۔
وہ شخص کون تھا؟ وہ امریکا کے نائب صدر البرٹ آرنلڈ ایل گور تھے‘ ایل گور 1993ءسے 2001ءتک امریکا کے نائب صدر رہے‘انہوں نے 2000ءمیں صدارتی الیکشن لڑا لیکن وہ جارج بش کے ہاتھوں ہار گئے‘ ماحولیات ایل گور کا جنون ہے‘ یہ 1976ءسے ماحولیاتی تبدیلیوں پر کام کر رہے ہیں‘ انہوں نے دنیا کو ماحولیاتی آلودگی سے بچانے کےلئے ایک این جی او بھی بنا رکھی ہے‘ یہ 2000ءکے بعد خود کو ماحولیات تک محدود کر چکے ہیں‘ ایل گور کو 2007ءمیں ماحولیات اور موسمی تبدیلیوں پر خدمات کے صلے میں نوبل انعام سے بھی نوازا گیا‘ ایل گور نے 1998ءمیں صدر بل کلنٹن کی مدد سے وہ منصوبہ شروع کرایا جس کی ”بشارت“ انہیں خواب کے ذریعے ہوئی‘ اس منصوبے کو ایل گور کی مناسبت سے ”ایل گور سیٹلائیٹ“ کا نام دیا گیا‘ یہ منصوبہ 17 سال جاری رہا‘ یہ سیاست کی نذر بھی ہوا‘ یہ رکا‘ چلا اور پھر رکا لیکن یہ بالآخر تین دن قبل مکمل ہو گیا‘ ایل گور سیٹلائیٹ فضا میں اس زاویے پر پہنچ گیا جہاں سے یہ اب پورے کرہ ارض کی تصویر بنا سکتا ہے‘ اب سوال یہ ہے اس منصوبے سے بنی نوع انسان کو کیا فائدہ ہو گا؟ آپ یقین کیجئے ایلگور سیٹلائیٹ انسانی زندگی کی شکل بدل دے گا‘ یہ سیارہ ہر دو گھنٹے بعد زمین کی مکمل تصویر ناسا کو بھجوائے گا‘ اس کے بعد پورے کرہ ارض پر آنے والی موسمی تبدیلیوں کو سمجھنا آسان ہو جائے گا‘ قطب جنوبی‘ ماﺅنٹ ایوریسٹ اور کے ٹو پر برف کے کسی تودے میں جب بھی تبدیلی ہو گی‘ بادل کے ٹکڑے جب بھی سائبیریا سے چین کی طرف چلیں گے‘ بحرالکاہل کی موجوں میں جب بھی کسی موج کا اضافہ ہو گا‘ صحرائے گوپی میں جب بھی ریت کا کوئی ٹیلہ کروٹ بدلے گا‘ بلیک فاریسٹ یا ایمازون میں جب بھی درخت کٹیں گے‘ پینگوئن کے خاندان قطب شمالی سے جب بھی نقل مکانی کریں گے یا پھر جب بھی کوئی نیا آتش فشاں ایکٹو ہو گا‘ اوزون کی تہہ میں کوئی نئی تبدیلی آئے گی یا پھر عرب کے صحراﺅں میں گردوغبار کا کوئی طوفان اٹھے گا‘ پوری دنیا صرف دو گھنٹوں میں اس تبدیلی اور اس تبدیلی کے اثرات سے آگاہ ہو جائے گی‘ یوں دنیا کے 245 ممالک حادثوں‘ زلزلوں‘ سونامیوں‘ خشک سالیوں‘ آتش فشانیوں اور سیلابوں سے قبل اپنا بندوبست کر لیں گے‘ یہ سیٹلائیٹ مستقبل میں انسانیت کا بہت بڑا خادم ثابت ہو گا لیکن سوال یہ ہے کیا پاکستان بھی ایل گور سیٹلائیٹ سے فائدہ اٹھانے والے ممالک میں شامل ہو گا؟ اس کا جواب دو کلو میٹر طویل ناں ہے کیونکہ ہم پاکستانی اللہ تعالیٰ کی ایسی مخلوق ہیں جنہوں نے آج تک دو سو سال پرانی ٹیکنالوجی سے فائدہ نہیں اٹھایا‘ ہم آگ کو بھوسے میں چھپانے والے لوگ ہیں‘ ہم چوٹ پر برف رکھتے ہیں اور اعلان کر دیتے ہیں ”ہمارا علاج مکمل ہو گیا“ ہم ڈوبتے شخص کو رسی پکڑانے کی بجائے دعائیں شروع کر دیتے ہیں اور یوں وہ جان اور ہم ایمان سے جاتے ہیں اور ہم لوگ دریاﺅں کو سمندروں میں گراتے ہیں اور اس کے بعد بالٹیاں اٹھا کر گلی گلی پانی کی بھیک مانگتے ہیں‘ ہم کمال لوگ ہیں اور کمال لوگوں کو ایل گور سیٹلائیٹ جیسی ٹیکنالوجی کی ضرورت نہیں ہوا کرتی‘ ہمیں صرف بجانے کےلئے ڈھول اور سیاپے کےلئے عمران خان چاہیے ہوتے ہیں اور یہ دونوں نعمتیں ہمارے پاس وافر ہیں۔
آپ کو اگر اپنی صلاحیتوں پر یقین نہ آئے تو آپ صرف سیلابوں کا تیس سال کا ڈیٹا نکال لیجئے‘ آپ حیران رہ جائیں گے‘ ہم 30 برسوں سے سیلابوں کا شکار ہو رہے ہیں‘ ملک میں چھ برس سے مسلسل تباہ کن سیلاب آ رہے ہیں‘ ہم ہر سال ملک کے ایک تہائی حصے کو پانی میں ڈوبا دیکھتے ہیں‘ سکردو سے کراچی تک کہاں کہاں پانی نہیں آتا اور یہ پانی کس کس شہر‘ کس کس گاﺅں کو تباہ نہیں کرتا‘ عمارتیں بہہ جاتی ہیں‘ مال مویشی مر جاتے ہیں‘ فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں‘ سڑکیں اور پل ٹوٹ جاتے ہیں اور لوگ مر جاتے ہیں لیکن ہم نے لوگوں کو سیلابوں سے بچانے کےلئے کیا کیا؟ ہم آج تک ندی‘ نالوں اور دریاﺅں میں موجود تجاوزات نہیں ہٹا سکے‘ ہمارے ملک میں کوئی بھی شخص‘ کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ عمارت کھڑی کر سکتا ہے اور کوئی اس سے سوال تک نہیں کرتا‘ ہمارے دریاﺅں میں ہاﺅسنگ سکیمیں بن چکی ہیں‘ فیکٹریاں لگی ہیں لیکن ہم نے آج تک ملک میں بلڈنگ کنٹرول کا کوئی مضبوط نظام نہیں بنایا‘ ملک میں سیلاب کی وارننگ تک کا نظام موجود نہیں‘ بین الاقوامی ادارے ای میل کرتے رہتے ہیں مگر ہم ای میل پڑھنے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کرتے‘ ہم آج تک سیلابوں میں پھنسے لوگوں کو نکالنے کےلئے کشتیاں تک پوری نہیں کر سکے‘ ہم نے خیمے‘ ادویات اور خوراک کی سپلائی تک کا کوئی نظام نہیں بنایا‘ بھارت میں 5000 ڈیم ہیں‘ چین نے 22 ہزار ڈیم بنا لئے‘ چین تین بڑے ڈیموں سے 22 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرتا ہے لیکن پاکستان میں صرف 156 ڈیم ہیں‘ ہم ہمسایوں تک سے سیکھنے کےلئے تیار نہیں ہیں‘ ہم آج بھی ڈیموں پر لڑ رہے ہیں‘ کالا باغ ڈیم آج بھی ملک میں گالی کی حیثیت رکھتا ہے‘ ہم سیلابوں میں ڈوبنے والی قوم ہیں لیکن پانی کی حالت یہ ہے‘ ہم سال میں صرف 15 دن پانی سے پوری کیپسٹی کے برابر بجلی پیدا کرتے ہیں‘ ہم باقی ساڑھے گیارہ مہینے اسی فیصد بجلی فرنس آئل سے حاصل کرتے ہیں‘ بھارت ساڑھے تین مہینے کا پانی ذخیرہ کرتا ہے‘ چین کے پاس چھ مہینے کا پانی سٹور ہے جبکہ ہمارے پاس صرف 15 دن کا پانی ہوتا ہے‘ ہم برسات میں ڈوب کر مرتے ہیں اور باقی نو مہینوں میں بارش کی دعائیں کرتے ہیں‘ ہم نے آج تک نہیں سوچا ہم کم از کم اپنے کھیتوں میں چھوٹے چھوٹے جوہڑ ہی بنا لیں‘ یہ جوہڑ بارش کا پانی اکٹھا کریں گے اور یہ پانی بعد ازاں آب پاشی کے کام آئے گا‘ ہم پانی کے راستوں میں چھوٹی چھوٹی جھیلیں اور ڈیم ہی بنا لیں‘ یہ ڈیم‘ یہ جھیلیں پانی سٹور کریں‘ یہ پانی آبپاشی کے کام بھی آئے اور یہ زمین میں پانی کا لیول بھی اونچا کرے اور یہ ڈیم سیلابوں کو بھی روکیں‘ ہم اگر کچھ نہیں کرتے تو ہم کم از کم پانی کی گزرگاہوں کے راستوں میں موجود تجاوزات ہی ختم کرا دیں‘ ہم پانی کو راستہ ہی دے دیں‘ ہم کیسی قوم ہیں‘ ہم پانی کے راستے میں مکان بنا لیتے ہیں‘ ہم خود ڈوب کر مر جاتے ہیں اور ہمارے حکمران عید منانے کےلئے دوبئی‘ لندن اور سعودی عرب چلے جاتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ ایسی قوم پر عذاب نازل نہ کرے تو کیا کرے؟ کیا اسے پھول بھجوائے؟۔
آپ ایک لمحے کےلئے سوچئے ایل گور جیسے لوگ خواب بھی کیسے کیسے دیکھتے ہیں اور ہم لوگ کھلی آنکھوں کے ساتھ کیا کر رہے ہیں؟ وہ کیا ہیں اور ہم کیا ہیں اور ہمیں ہم ہونے پر شرم تک نہیں آتی۔



کالم



شاہ ایران کے محلات


ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…

مشہد میں دو دن (آخری حصہ)

ہم اس کے بعد حرم امام رضاؒ کی طرف نکل گئے‘ حضرت…

مشہد میں دو دن (دوم)

فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…