برسبن سے

17  جولائی  2015

برسبن ہماری اگلی منزل تھی‘ آپ اگر آسٹریلیا کا نقشہ بچھا کر دیکھیں تو آپ کو برسبن سڈنی کے دائیں جانب نظر آئے گا‘ سڈنی کے دائیں جانب گرم علاقے ہیں جبکہ آپ اگر سڈنی سے بائیں جانب چلیں تو موسم سرد ہوتا جاتا ہے‘کینبرا میں بھی سردی پڑتی ہے اور میلبورن سڈنی سے زیادہ ٹھنڈا ہے‘ تسمانیہ سمندر میں گھرا ہوا آسٹریلین جزیرہ ہے‘ یہ جزیرہ نیوزی لینڈ کے قریب ہے‘ میلبورن بھی ٹھنڈا ہے‘ اس کے برعکس سڈنی سے دائیں جانب موسم گرم ہے یہاں تک کہ ڈارون میں شدید گرمی پڑتی ہے‘ ڈارون انڈونیشیا کے قریب ہے‘ آپ دو گھنٹے میں وہاں سے جکارتا پہنچ جاتے ہیں‘ ڈارون کا وقت بھی سڈنی اور میلبورن سے مختلف ہے‘ غیر قانونی طور پر آسٹریلیا آنے والے زیادہ تر لوگ کشتیوں پر انڈونیشیا سے ڈارون آتے ہیں اور ڈارون پہنچ کر آسٹریلیا میں سیاسی پناہ لے لیتے ہیں‘ برسبن سڈنی اور ڈارون کے درمیان ہے‘ یہ گنے‘ کیلے اور مالٹے کے باغات اور اپنے گرم خوبصورت ساحلوں کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے‘ دنیا کی مشہور ترین کوسٹل لائین ”گولڈ کوسٹ“ بھی برسبن کے ہمسائے میں واقع ہے‘ ہم بدھ کے دن برسبن پہنچ گئے‘ یہ 915 کلو میٹر لمبی ڈرائیو تھی‘ راﺅ عامر تحریم برسبن میں ہمارا انتظار کر رہے تھے‘ یہ بہاولپور سے تعلق رکھتے ہیں‘ تعلیم کےلئے نیوزی لینڈ آئے‘ وہاں سے سڈنی آ گئے اور آخر میں گرافٹن اور برسبن کے مقیم ہو گئے‘ یہ بزنس مین ہیں‘ پٹرول پمپس بھی چلاتے ہیں اور کالج بھی۔ یہ کاروبار کی وجہ سے اپنا زیادہ وقت گاڑی میں گزارتے ہیں‘ ہم نے اس طویل سفر کی وجہ سے ان کا نام ”راﺅ پراڈو“ رکھ دیا کیونکہ ہر ہفتے چار پانچ ہزار کلو میٹر کا سفر صرف وہ لوگ کر سکتے ہیں جو راﺅ ہوں یا جنہیں مہینے میں صرف تین دن گیراج نصیب ہوتا ہو‘ راﺅ صاحب بڑی شدت سے ہمارا انتظار کر رہے تھے‘ سفر شاندار تھا‘ ہمارے دائیں ہاتھ سمندر چل رہا تھا جبکہ بائیں ہاتھ چھوٹے چھوٹے گاﺅں‘ چراہ گاہیں اور فارم ہاﺅسز آ رہے تھے‘ گرافٹن پہنچ کر ماحول مزید خوبصورت ہو گیا‘ ہم سمندر اور دریا کے درمیان آ گئے‘ وہ صاف پانی کا نیلا دریا تھا جس میں سورج غسل کی تیاری کر رہا تھا‘ آپ کو زندگی میں کبھی کوئی دریا سفید بادلوں‘ میلوں تک پھیلے کھیتوں اور سیاہ گھنے جنگلوں کے قریب بہتا نظر آئے تو آپ وہاں ضرور رکئے اور وہ وقت اگر غروب آفتاب کا ہو تو وہاں نہ رکنا کفران نعمت ہو گا‘ کیوں؟ کیونکہ وہ منظر صرف منظر نہیں ہو گا وہ اللہ کی عظیم نعمت ہو گا اور آپ اس نعمت سے منہ موڑ کر اللہ تعالیٰ کو ناراض کر بیٹھیں گے‘ ہم بھی گرافٹن میں رک گئے‘ وہ کوئی اجنبی گاﺅں تھا‘ دریا گاﺅں کے قریب پہنچ کر شانت ہو گیا تھا‘ میں اور مظہر بخاری دریا کے کنارے اتر گئے‘ گاﺅں کے لوگوں نے کشتیاں باندھنے کےلئے پانی میں لکڑی کے دوستون گاڑھ رکھے تھے‘ ہم ستونوں کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑے ہو گئے اور دریا میں اترتے سورج کو دیکھنے لگے‘ وہ لمحہ بھی زندگی کے شاندار ترین لمحات میں سے ایک تھا۔
گرافٹن شہر دو حوالوں سے منفرد ہے‘ شہر کے مضافات میںوول گول گا(Wool Goolga)کا ٹاﺅن ہے‘ قصبے میں کیلے کے میلوں تک پھیلے باغات ہیں‘ آپ کو وہاں تاحد نظر کےلے کے درخت نظر آتے ہیں‘ دوسرا حوالہ سکھ ہیں‘ یہ سکھ سن 1800ءکے آخر میں آسٹریلیا آئے اور ”وول گول گا“ آ کر کےلے کے باغات پر قابض ہو گئے‘ وہ دن ہے اور آج کا دن ہے آسٹریلیا میں سکھ اور کےلے دونوں ایک ہو چکے ہیں‘ کیلوں پر سکھوں کی باقاعدہ مناپلی ہے‘ وول گول گا کے سکھ آسٹریلیا میں اپنا روایتی لباس پہنتے ہیں‘ پنجابی بولتے ہیں اور بیساکھی کا تہوار مناتے ہیں‘ گاﺅں میں دو گردوارے بھی موجود ہیں‘ یہ اپنے بچوں کی شادیاں پنجاب میں کرتے ہیں‘ بہو پنجاب سے سیدھی ”وول گول گا“ آتی ہے اور پھر پوری زندگی کیلے کے باغ میں گزار دیتی ہے‘ یہ گرافٹن تک نہیں جاتی‘ ہم واپسی پر ”وول گول گا“ بھی رکے‘ ہم گردوارے بھی گئے‘ ہم نے سکھوں سے ملاقات بھی کی اور کےلے کے باغ کی سیر بھی کی‘یہ باغ ہمارے باغات سے بہتر ہیں‘ ہماری حکومت کو جدید تکنیک جاننے کےلئے اپنے ماہرین ”وول گول گا“ بھیجنے چاہئیں‘ یہ لوگ وہاں ہم سے زیادہ فصل لے رہے ہیں‘ کوئینز لینڈ سٹیٹ گنے اور شوگر ملوں کی وجہ سے بھی پوری دنیا میں مشہور ہے‘ آپ اگر برسبن سے آ گے سفر کریں تو آپ کوبرسبن سے کینز تک سڑک کے دونوں اطراف ہزار کلو میٹر تک صرف اور صرف گنے کے کھیت نظر آتے ہیں‘ آپ کو کھیتوں کے درمیان شوگر ملیں بھی ملیں گی‘ ہم پاکستان میں کھیتوں سے گنا کاٹ کر ملوں تک پہنچاتے ہیں‘وہاں یہ سسٹم نہیں‘ آسٹریلیا میں کھیتوں میں تھریشر مشینوں جیسی مشینیں لگی ہیں‘ یہ مشینیں کھیت سے گنا کاٹتی ہیں‘ اسے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں توڑتی ہیں‘ یہ ٹکڑے ٹرالیوں میں بھرے جاتے ہیں اور یہ ٹرالیاں سیدھی مل چلی جاتی ہیں‘ ہماری حکومت آسٹریلیا سے یہ ٹیکنالوجی برآمد کیوں نہیں کرتی؟ یہ کسانوں میں یہ تکنیک متعارف کیوں نہیں کراتی؟ ہم نے اپنے کسان کو روایتی کاشت کاری تک محدود کیوں کر رکھا ہے‘ کوئینز لینڈ میں پھرتے ہوئے یہ سوال بار بار میرے ذہن میں آتا تھا اور مجھے کوئی جواب نہیں ملتا تھا۔
برسبن میں 22 لاکھ لوگ رہتے ہیں لیکن یہ اس کے باوجود خاموش شہر ہے‘ رات نو بجے شہر میں سناٹا ہو جاتا ہے‘ دنیا کے تمام بڑے اور خوبصورت شہروں کی طرح برسبن بھی دریا کے دو کناروں پر آباد ہے‘ آدھا شہر ادھر ہے اور آدھا ادھر۔ شہر کے دونوں حصوں کو پلوں نے جوڑ رکھا ہے‘ ڈاﺅن ٹاﺅن میں بلند و بالا عمارتیں بھی تھیں اور رونق بھی۔ یہ شہر گولڈ کوسٹ کی وجہ سے دنیا بھر کے سیاحوں کی حتمی منزل ہے چنانچہ آپ کو شہر میں دنیا جہاں کے لوگ ملتے ہیں‘ ہمارے اسلام آباد کی طرح وہاں بھی ایک ”دامن کوہ“ہے‘ آپ وہاں سے پورے شہر کا نظارہ کر سکتے ہیں‘ دریا کے جنوبی کنارے پر مصنوعی بیچ بھی ہے‘ سوئمنگ پول بھی‘ پارک بھی اور سڑک کے ساتھ ساتھ ریستوران اور کافی شاپس بھی۔ اس جگہ رونق رہتی ہے‘ گولڈ کوسٹ برسبن سے پونے گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ ساحل سفید گرم ریت‘ نیلے پانی اور صاف آسمان کی وجہ سے مشہور ہے‘ حکومت نے ساحل کے ساتھ ساتھ درجنوں سپاٹ بنا دیئے ہیں۔ ”سرفس پیرا ڈائز“ بڑا ٹاﺅن ‘ آپ کو ٹاﺅن میں سمندر کے کنارے فلیٹس کے آسمان بوس ٹاور نظر آتے ہیں‘ آسٹریلیا کے امراءغروب آفتاب اور طلوع آفتاب کا نظارہ کرنے کےلئے یہ فلیٹس خریدتے ہیں‘ ٹاﺅن میں گرمی تھی اور خواتین مرد اور بچے گرم ریت پر لیٹ کر گرمی کا مزا لوٹ رہے تھے‘ ریستوران‘ کافی شاپس اور پب بھی آباد تھے‘ ہم جس طرف سر اٹھاتے تھے ہمیں لوگ ہی لوگ نظر آتے تھے‘ حکومت نے سیاحوں کی تفریح کےلئے جگہ جگہ گلوکار بٹھا رکھے تھے‘ یہ گلو کار ساز بجاتے تھے اور گانے گاتے تھے اور سینکڑوں لوگ ان کے سامنے کھڑے ہو کر ڈانس کر رہے تھے‘ یوں محسوس ہوتا تھا پورا شہر خوش ہے‘ سرفس پیراڈائز میں سکھ اور بھارتی زیادہ ہیں‘ یہ نوجوان ریستورانوں اور دکانوں میں کام کرتے ہیں‘ حکومت یہاں کام کرنے والوں کو پاسپورٹ جلدی دے دیتی ہے چنانچہ نوجوان سرفس پیراڈائز کا رخ کرتے ہیں۔”بائرن بے“ ہماری اگلی منزل تھی‘ یہ گولڈ کوسٹ پر دوسرا بڑا اور مشہور مقام ہے‘ یہ شہر ہپیوں کی جنت کہلاتا ہے‘ آپ کو ساحلی علاقے میں سینکڑوں کی تعداد میں ہیپی نظر آتے ہیں‘ یہ لوگ تہذیب‘ قانون اور معاشرت کو تسلیم نہیں کرتے‘ یہ شراب پیتے ہیں‘ چرس کے مرغولے اڑاتے ہیں‘ ناچتے ہیں اور گاتے ہیں اور یوں زندگی کا سفر مکمل کر کے دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔
ہم بائرن بے پہنچے تو زندگی کی خوبصورت ترین شام ہمارا انتظار کر رہی تھی‘ آسمان پر رین بو کی دو کمانیں تنی تھیں‘ ہیپی مسحور ہو کر رین بو دیکھ رہے تھے‘ میں بھی ان کی اس ”عبادت“ میں شریک ہو گیا‘ میں نے سینکڑوں رین بو دیکھیں لیکن دو اکٹھی رین بو میری زندگی کا پہلا تجربہ تھا‘ میرے دائیں جانب رین بو تھیں اور بائیں جانب سورج ڈوب رہا تھا‘ وہ شام اف خدایا قیامت کی شام تھی‘ یوں محسوس ہوتا تھا لیونارڈو ڈاونچی اپنے برش رنگوں میں ڈبو رہا ہے اور مو قلم سے آہستہ آہستہ آسمان کے کینونس پر اپنی زندگی کی خوبصورت ترین شام پینٹ کرتا جا رہا ہے‘ سورج جوں جوں ڈوب رہا تھا توں توں آسمان کے تنے ہوئے خیمے کے کناروں پر آگ لگ رہی تھی‘ بادلوں کے پرے آگ بجھانے کےلئے آسمان کے کناروں کی طرف دوڑتے تھے اور سیاہ ہو کر افق کے کینوس پر بکھر جاتے تھے‘ میں مبہوت ہو گیا‘ وہ منظر منظر نہیں تھا وہ مقدس عبادت گاہ تھا‘ ایک ایسی عبادت گاہ جسے دیکھنے کے بعد آپ خود کو سجدے سے باز نہیں رکھ سکتے‘ آپ خود کو بارہ گاہ ایزدی میں جھکنے سے نہیں روک سکتے‘ میں ساحل کے آخری کونے پر رک گیا‘ میرے سامنے سمندر کا پانی جھاگ اڑا رہا تھا‘ سامنے سیاہ پڑتا آسمان تھا اور آسمان کے آنچل پر آگ لگی تھی‘ میں نے موبائل فون نکالا اور اس منظر کو سکرین کے حافظے میں قید کر لیا‘ یہ منظر اب میرا منظر تھا‘ مجھے اس دن پہلی بار معلوم ہوا قدیم زمانوں کے لوگ سورج کو دیوتا کیوں بنا لیتے تھے‘ وہ یقینا ایسے منظر دیکھتے ہوں گے اور اس کے بعد افق کے سامنے جھک جاتے ہوں گے‘ میرے سامنے ہیپی سورج کے سامنے جھکے ہوئے تھے اور میں ٹکٹکی باندھ کر اللہ کی حمد و ثناءمیں مصروف تھا۔
بے شک ہم اس کی کس کس نعمت کو جھٹلائیں گے۔



کالم



سرمایہ منتوں سے نہیں آتا


آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…