اداس نسل

5  جولائی  2014

پاکستان بنا تو میرے والد کی عمر بارہ تیرہ سال تھی‘ وہ گاؤں کے دوسرے بچوں کے ساتھ جنگل میں جانور چرا رہے تھے‘ شہر سے ڈاکیا آیا اور اس نے سب بچوں کو جمع کر کے خوشخبری سنائی ’’ ہمارے دیس کا نام بدل گیا ہے اب ہم ہندوستان کے بجائے پاکستان کے شہری ہیں‘‘ میرے والد نے حیرت سے پوچھا ’’ اس سے کیا فرق پڑے گا‘‘ ڈاکیے نے بتایا ’’ بے وقوفو! ہم آزاد ہوگئے ہیں‘‘

میرے والد نے فوراً جذباتی ہو کر پوچھا ’’ اس کا مطلب ہے انگریز یہاں سے چلے جائیں گے اور اب ہمارے سارے صاحب دیسی ہوں گے‘‘ ڈاکیے نے فوراً اثبات میں سر ہلایا اور سائیکل پر بیٹھ کر گاؤں کی طرف روانہ ہوگیا‘ اس نے شام تک پانچ دیہات میں یہ خوشخبری سنانی تھی‘ یہ پاکستان کے ساتھ میرے والد کا پہلا تعارف تھا‘ میرے والد انتہائی سیلف میڈ شخص ہیں‘ انہوں نے دو کلاس تک تعلیم پائی‘ گاؤں کی زندگی اور دشمنیاں ترک کیں ‘ شہر میں آ کر دکانداری سے سٹارٹ لیا‘ پچاس برس تک مسلسل محنت کی اور لاکھوں بلکہ کروڑوں روپے کمائے‘ وہ پوری زندگی سچے اور پکے پاکستانی رہے‘ وہ اخبار نہیں پڑھ سکتے لیکن جب میں تیسری جماعت میں پڑھتا تھا تو انہوں نے گھر میں اخبار لگوایا اور مجھے اخبار پڑھنے کی ’’ لت‘‘ ڈال دی‘ انہوں نے ایک منشی رکھا ہوا تھا‘ یہ منشی انہیں روزانہ اخبار پڑھ کر سناتا تھا‘ انہوں نے 1971ء میں ٹیلی ویژن لیا اور آج تک پی ٹی وی کا خبر نامہ سنتے ہیں‘ 1999ء میں انہوں نے سیلف ریٹائرمنٹ لے لی‘ اپنا سارا کاروبار بند کیا‘ اپنی ساری جائیداد فروخت کردی اور رقم ہم سب بہن بھائیوں میں تقسیم کردی اور باقی زندگی ٹیلی ویژن کیلئے وقف کردی‘ وہ روز صبح حقہ تازہ کرتے ہیں اور رات گئے تک ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھے رہتے ہیں چنانچہ پاکستان کے کس شعبے میں کیا ہو رہا ہے ‘ دنیا کے کس ملک کے سیاسی حالات کیا ہیں اور کون سے رہنما نے کیا کہا تھا وہ سب کچھ جانتے ہیں۔میرے والد نے زندگی میں صرف دو بڑے سفر کئے‘

وہ ایک بار میرے ساتھ عمرے کیلئے گئے اور ایک مرتبہ انہوں نے حج کیا‘ پچھلے مہینے انہوں نے ایک عجیب فرمائش کی‘ انہوں نے فرمایا ’’ میں ملک سے باہر جانا چاہتا ہوں‘‘ میں نے پوچھا ’’ ابا جی کہاں؟ ‘‘ انہوں نے فرمایا ’’ میں آزاد ملکوں میں جانا چاہتا ہوں‘ میں ایسے ملکوں ایسے شہروں میں پھرنا چاہتا ہوں جہاں لوگ قول‘ فعل اور سوچ میں آزاد ہوں‘ جہاں یونیفارم والے حکمران نہ ہوں‘ جہاں کے سیاستدان کی زبان میں ضمیر بولتا ہو اور جہاں پولیس احتجاج کرنے والوں پر ڈنڈے نہ برساتی ہو‘‘

میں نے حیرت سے پوچھا ’’ ابا جی میں آپ کی بات نہیں سمجھا ‘‘ وہ بولے ’’ ہمارے گاؤں کے ڈاکیے نے مجھے 13 سال کی عمر میں آزادی کی خوشخبری سنائی تھی‘ میں اس وقت گھر سے نکل آیا تھا‘ آج مجھے گاؤں سے نکلے ساٹھ سال ہو چکے ہیں لیکن مجھے اس ملک میں کہیں آزادی نہیں ملی‘ مجھے محسوس ہوتا ہے پچھلے ساٹھ برسوں میں صرف میرے آقا بدلتے چلے آرہے ہیں‘1947ء سے پہلے برطانیہ سے کوئی لارڈ آجاتا تھا اور 1947ء کے بعد کوئی فیلڈ مارشل یا کوئی جرنیل میرے اوپر حکومت شروع کردیتا ہے‘

1947ء سے پہلے انگریز ہمیں ڈنڈے مارتے تھے ‘ ہمیں سڑکوں پر گھسیٹتے اور جیلوں میں پھینکتے تھے اور آج ہمیں ہماری اپنی پولیس مار رہی ہے‘ مجھے آج محسوس ہوتا ہے یہ ملک آزاد نہیں ہوا چنانچہ میں مرنے سے پہلے کوئی آزاد ملک دیکھنا چاہتا ہوں‘ تم خدا کیلئے مجھے کوئی آزاد ملک دکھا دو‘‘ میری آنکھوں میں آنسو آگئے اور میں نے اپنے والد سے وعدہ کیا میں آپ کو یورپ لے کر جاؤں گا ‘ مجھے ان کے کاغذات بنانے اور ویزے لگوانے میں ایک مہینہ لگ گیا‘

اسی دوران میرے بزرگ دوست اور مہربان جسٹس رانا بھگوان داس نے بھی یورپ میں دس پندرہ دن چھٹی گزارنے کا پروگرام بنا لیا‘ جسٹس صاحب کا فرمانا تھا اگر آپ بھی وقت نکال لیں تو اکٹھے چلے جاتے ہیں‘ میں نے اباجی کا بتایا تو انہوں نے فرمایا انہیں میرے ساتھ بھجوا دیں‘ میں نے اباجی سے بات کی لیکن انہوں نے فرمایا ’’ ہم عید کے بعد جاتے ہیں ‘‘ جبکہ جسٹس صاحب نے دو اکتوبر کو روانہ ہونے کا پروگرام بنا رکھا تھا‘ میں نے اس حساب سے اپنی مصروفیات ترتیب دے دیں لیکن پھر 28 اور 29 ستمبر کے دن آئے‘

پہلے سپریم کورٹ کے فیصلے نے پوری قوم کا دل توڑا اور اس کے بعد 29 ستمبر کو حکومت نے میڈیا کے کارکنوں اور وکلاء پر بربریت کی انتہا کردی‘ آج کی دنیا کیلئے ایسے اقدامات اور مناظر ناقابل یقین ہیں‘ آج دنیا کے بدترین آمر اور سنگ دل ترین حکومتیں بھی کاغذ‘ قلم اور کیمرے کا احترام کرتی ہیں لیکن پولیس نے حکومت کی ایما پر جس طرح روزہ دار صحافیوں پر تشدد کیا اور سڑک پر لٹا کر جس طرح ان پر ڈنڈے برسائے دنیا کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی‘ میرے والد ٹیلی ویژن پر یہ منظر دیکھ رہے تھے‘

انہوں نے مجھے فون کیا اور حکم دیا ’’ میں فوراً باہر جانا چاہتا ہوں‘ میرا دم گھٹ رہا ہے‘‘ میں نے عرض کیا ’’ لیکن عید‘‘ انہوں نے فرمایا میں عید بھی باہر منانا چاہتا ہوں‘‘ میں فوراً ٹریول ایجنسی گیا اور اپنا اور اپنے والد کا ٹکٹ خرید لایا‘ آپ جس وقت یہ سطریں پڑھ رہے ہوں گے میں اس وقت اپنے والد کے ساتھ پیرس پہنچ چکا ہوں گا اور جسٹس رانا بھگوان داس بھی ہمیں ایک دن بعد جوائن کر لیں گے‘ میں عید تک واپس آ جاؤں گا جبکہ میرے والد ویزے کے خاتمے تک یورپ میں رہیں گے۔

میں نے کل اپنے والد سے پوچھا ’’ آپ کو پاکستان کا کون سا فوجی حکمران نسبتاً بہتر لگا‘‘ انہوں نے فوراً فرمایا ’’ ایوب خان‘‘ میں نے وجہ پوچھی تو وہ بولے ’’ ایوب خان کو عوام نے ایک بار گالی دی تھی اس نے اسی وقت استعفیٰ دیا اور گھر چلا گیا جبکہ اس کے بعد جو بھی فوجی حکمران آیا وہ پاکستان توڑ کر واپس گیا یا پھر اس نے مر کر جان چھوڑی‘‘ وہ رکے اور دوبارہ بولے ’’ صدر پرویز مشرف بھی نہیں جائے گا‘‘ میں نے پوچھا ’’ کیوں‘‘ وہ بولے ’’ کیونکہ یہ صدر ایوب خان نہیں ہے‘‘

میرے والد خاموش ہوگئے جبکہ میں دیر تک سوچتا رہا‘ میں نے ذرا سی خاموشی کے بعد اباجی سے پوچھا ’’ کیا صدر مشرف نے پاکستان کو کچھ نہیں دیا‘‘ ابا جی ذرا سے مسکرائے اور بولے ’’ صدر مشرف نے عوام کو غصہ اور شدت دی ہے‘ موجودہ حالت نے لوگوں کو حساس اور جذباتی بنا دیا ہے ‘ اب لوگوں میں برداشت نہیں رہی چنانچہ پورا ملک اب ایک دوسرے کے ساتھ الجھ اور لڑ رہا ہے‘ لوگ خودکشیوں اور خودکش حملوں کے بارے میں سوچتے ہیں‘

اب وزراء عوام میں نہیں جا سکتے اور ہمارے فوجی جوان چھاؤنیوں سے باہر نہیں نکل سکتے‘ حکومت نے عوام کو یہ تحفہ دیا ہے‘‘ میرے والد پیکنگ کیلئے چلے گئے اور میں سوچنے لگا اگر ملک اور قوم کے سیاسی اور سماجی حالات اسی طرح جاری رہے اور آج سے دس پندرہ برس بعد میرے بچوں نے بھی مجھ سے یہی مطالبہ کر دیا‘ اگر انہوں نے بھی مجھ سے یہ کہہ دیا ’’ ہمارا دم گھٹتا ہے اور ہم زندگی میں کوئی آزاد اور خودمختار ملک دیکھنا چاہتے ہیں‘‘

تو اس وقت میری جذباتی حالت کیا ہو گی اور میں اپنے آپ کو کیا جواب دوں گا‘ آج میں اپنے آپ کو بری طرح ایک اداس نسل سمجھ رہا ہوں‘ میں ایک ایسی اداس نسل ہوں جو اپنے بزرگوں کو ایک پرسکون ملک اور اپنے بچوں کو ایک ترقی پذیر اور مہذب معاشرہ نہیں دے سکی‘ جس کا ملک تو کامیاب ہے لیکن خود وہ ناکام ہو چکی ہے‘ آئیے ہم سب اپنی ناکامی تسلیم کرلیں‘ ہم مان لیں ہم نے اداس نسل بن کر زندہ رہنا ہے اور اپنی طبعی عمر پوری کرکے اداسی کے قبرستان میں دفن ہو جانا ہے‘ آئیے ہم تسلیم کر لیں ہم اپنے بزرگوں کو سکھ دے سکتے ہیں اور نہ ہم اپنے بچوں کو تحفظ‘ ہم ایک ہاری ہوئی قوم ہیں۔



کالم



شاہ ایران کے محلات


ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…

مشہد میں دو دن (آخری حصہ)

ہم اس کے بعد حرم امام رضاؒ کی طرف نکل گئے‘ حضرت…

مشہد میں دو دن (دوم)

فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…