قرآن حکیم کی وہ آیت جس نے پہلے ایک غیر مسلم پروفیسر کو اسلام قبول کرنے کیلئے متاثر کیا

4  اکتوبر‬‮  2017

ممتاز سعودی عالم ابو عبد الرحمن محمد العریفی کہتے ہیں کہ میں یمن گیا اور شیخ عبد المجید زندانی سے ملا جو جید عالم دین ہیں اور شیخ نےپر کافی کام کیا ہے۔میں نے شیخ سے پوچھا کوئی ایسا واقعہ کہ کسی نے قرآن کریم کی کوئی آیت سنی ہو اور اُس نے اسلام قبول کیا ہو شیخ نے کہا بہت سے واقعات ہیں۔میں نے کہا مجھے بھی کوئی ایک آدھ واقعہ بتائیں۔شیخ کہنے لگے ۔

کافی عرصہ پہلے کی بات ہے میں جدہ میں ایک سیمینار میں شریک تھا۔یہ بیالوجی اور اس علم میں جو نئے انکشافات ہوئے اُن کے متعلق تھا۔ایک پروفیسر امریکی یا جرمن (شیخ عریفی بھول گئے اُن کا وہم ہے) نےیہ تحقیق پیش کی کہ انسانی اعصاب جس کی ذریعے ہمیں درد کا احساس ہوتا ہے ان کا تعلق ہماری جلد کے ساتھ ہے پھر اس نے مثالیں دیں مثال کے طور پر کی جب انجیکشن لگتا ہے تو درد کا احساس صرف ۔جلد کو ہوتا ہے اس کے بعد درد کا احساس نہیں ہوتا۔اُس پروفیسر کی باتوں کا لب لباب یہی تھا کا انسانی جسم میں درد کا مرکز اور درد کا احساس صرف جلد تک محدود ہے جلد اور چمڑی کے بعد گوشت اور ہڈیوں کو درد کا احساس نہیں ہوتا۔شیخ زندانی کہتے ہیں میں کھڑا ہوا اور کہا پروفیسر یہ جو آپ نئی تحقیق لیکر آئے ہیں ہم تو چودہ سو سال پہلے سے آگاہ ہیں۔پروفیسر نے کہا یہ کیسے ہو سکتا ہے یہ نئی تحقیق ہے جو تجربات پر مبنی ہے اور یہ تو بیس تیس سال پہلے تک کسی کو پتہ نہیں تھا۔شیخ زندانی نے کہا کہ ہم تو بہت پہلے سے یہ بات جانتے ہیں اُس نے کہا وہ کیسے۔شیخ نے کہا میں نے قرآن کی آیت پرھی ۔’’جن لوگوں نے ہماری آیتوں سے کفر کیا، انہیں ہم یقیناً آگ میں ڈال دیں گے جب ان کی کھالیں پک جائیں گی ہم ان کے سوا اور کھالیں بدل دیں گے تاکہ وه عذاب چکھتے رہیں، یقیناً اللہ تعالیٰ غالب حکمت والا ہے ‘‘یعنی کہ جب اہل جہنم کی جب جلد اور کھال جل جائے گی اللہ مالک نئی جلد اورکھال دیں گے تاکہ عذاب کا مزہ چکھتے رہیں۔معلوم ہوا کہ درد کا مرکز جلد ہے ۔جب اھل جہنم کی جلد اور کھال ہی نہیں ہو گی تو انہیں درد کا احسا س نہیں ہو گا۔شیخ کہتے ہیں جب مین نے یہ آیت پڑھی اور ترجمہ کیا وہ پروفیسر سیمینار میں موجود ڈاکڑز اور پروفیسرز سے پوچھنے لگا کیا یہ ترجمہ صحیح ہے ؟سب نے کہا ترجمہ صحیح ہے۔وہ حیران و پریشان ہو کر خاموش ہو گیا ۔شیخ زندانی کہتے ہیں جب وہ باہر نکلا میں نے دیکھا وہ نرسوں سے پوچھ رہا تھا جو کہ فلپائن اور بریطانیہ سے تعلق رکھتی تھیں کہ مجھے اس آیت کا ترجمہ بتاؤ۔انہوں نے اپنے علم کے مطابق ترجمہ کیا ۔وہ پروفیسر تعجب سے کہنے لگا سب یہی ترجمہ کر رہے ہیں۔اُس نے کہا مجھے قرآن کا ترجمہ دو۔شیخ کہنے لگے میں نے اُسے ایک ترجمے والا قرآن دے دیا۔شیخ زندانی کہتے ہیں کہ ٹھیک ایک سال بعد اگلے سیمینار میں مجھے وہی پروفیسر ملا اور کہا:میں نے اسلام قبول کر لیا ہے اور یہی نہیں بلکہ میرے ہاتھ پر پانچ سو افراد نے اسلام قبول کیا ہے

موضوعات:



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…