’’اور اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دےدیتا ہے ‘‘

4  اکتوبر‬‮  2017

(ڈاکٹرزغلول النجارکنگ عبدالعزیز یونیورسٹی جدہ میں ماہر ارضیات کے پروفیسرہیں۔ قرآن مجید میں سائنسی حقائق کمیٹی کے سربراہ ہیں ۔ اورمصرکی سپریم کونسل آف اسلامی امور کی کمیٹی کے بھی سربراہ ہیں)۔
انہوں نے میزبان سے کہاکہ اس آیت کریمہ کی وضاحت کے لیے میرے پاس ایک واقعہ موجود ہے ۔انہوں نے اس واقعہ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ایک دفعہ میں برطانیہ کے مغرب میں واقع کارڈ ف یونیورسٹی میں ایک لیکچر دے رہا تھا ۔جس کوسننے کے لیے مسلم اور غیر مسلم طلبا ءکی کثیر تعداد موجود تھی ۔

قرآن میں بیان کردہ سائنسی حقائق پر جامع انداز میں گفتگو ہورہی تھی کہ ایک نو مسلم نوجوان کھڑ ا ہوا اور مجھے اسی آیت کریمہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سر کیا آپ نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر غور فرمایا ہے ، کیا یہ قرآن میں بیان کردہ ایک سائنسی حقیقت نہیں ہے ۔

1
ڈاکٹر زغلول النجار نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ نہیں! کیونکہ سائنس کی دریافت کردہ حیران کن اشیاءیا واقعات کی تشریح سائنس کے ذریعے کی جاسکتی ہے مگر معجزہ ایک مافوق الفطرت شے ہے ،جس کو ہم سائنسی اصولوں سے ثابت نہیں کرسکتے ۔چاند کا دوٹکڑے ہوناایک معجزہ تھا جس کو اللہ تعالیٰ نے نبوت محمد ی ﷺ کی سچائی کے لیے بطوردلیل دکھایا ۔حقیقی معجزات ان لوگوں کے لیے قطعی طورپر سچائی کی دلیل ہوتے ہیں جو ان کا مشاہدہ کرتے ہیں۔
2
ہم اس کو اس لیے معجزہ تسلیم کرتے ہیں کیونکہ اس کا ذکر قرآن وحدیث میں موجود ہے ۔اگر یہ ذکر قرآن وحدیث میں موجودنہ ہوتاتو ہم اس زمانے کے لو گ اس کو معجزہ تسلیم نہ کرتے ۔علاوہ ازیں ہمار ااس پر بھی ایمان ہے کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتاہے ۔پھر انہوں نے چاند کے دوٹکڑے ہونے کے واقعہ کو بیان کرتے ہوئے کہاکہ احادیث کے مطابق ہجرت سے 5سال قبل قریش کے کچھ لوگ حضور ﷺ کے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ اگر آپ واقعی اللہ کے سچے نبی ہیں تو ہمیں کوئی معجزہ دکھائیں ۔

حضور ﷺ نے ان سے پوچھا کہ آپ لوگ کیا چاہتے ہیں ؟انہوں نے ناممکن کام کا خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس چاند کے دو ٹکڑے کر دو۔چناچہ حضور ﷺ نے چاند کی طرف اشارہ کیا اور چاند کے دو ٹکڑے ہو گئے حتٰی کہ لوگوں نے حرا پہاڑ کو اس کے درمیان دیکھا یعنی اس کا ایک ٹکڑا پہاڑ کے اس طرف اورایک ٹکڑا اس طرف ہو گیا۔ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں سب لوگوں نے اسے بخوبی دیکھا اورآپ ﷺ نے فرمایا دیکھو ،یادرکھنا اور گواہ رہنا۔کفار مکہ نے یہ دیکھ کر کہا کہ یہ ابن ابی کبشہ یعنی رسول اللہ ﷺ کا جادو ہے ۔کچھ اہل دانش لوگوں کا خیال تھا کہ جادو کا اثر صرف حاضر لوگوں پر ہوتاہے ۔اس کا اثر ساری دنیا پر تو نہیں ہو سکتا ۔

چناچہ انہوں نے طے کیاکہ اب جولوگ سفر سے واپس آئیں ان سے پوچھو کہ کیا انہوں نے بھی اس رات چاند کو دو ٹکڑے دیکھاتھا۔چناچہ جب وہ آئے ان سے پوچھا ، انہوں نے بھی اس کی تصدیق کی کہ ہاں فلاں شب ہم نے چاند کے دوٹکڑے ہوتے دیکھاہے ۔کفار کے مجمع نے یہ طے کیا تھا کہ اگر باہر کے لوگ آ کر یہی کہیں تو حضور ﷺ کی سچائی میں کوئی شک نہیں ۔اب جو باہر سے آیا ،جب کبھی آیا ،جس طرف سے آیا ہر ایک نے اس کی شہادت دی کہ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھاہے ۔ا س شہاد ت کے باوجود کچھ لوگوں نے اس معجزے کا یقین کرلیا مگر کفار کی اکثریت پھر بھی انکار پر اَڑی رہی۔
3
اس واقعے کو ایک دو نے نہیں کئی لوگوں نے دیکھا ہوگا اسی حوالے سے معروف ترین روایات ملتی ہیں کہ انڈیاکے جنوب مغرب میں واقع مالابار کے لوگوں میں یہ با ت مشہور ہے کہ مالابار کے ایک بادشاہ چکراوتی فارمس نے چاند کے دو ٹکڑے ہونے کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھاتھا ۔ا س نے سوچاکہ ضرور زمین پر کچھ ایساہو اہے کہ جس کے نتیجے میں یہ واقعہ رونما ہوا ۔

چناچہ اس نے اس واقعے کی تحقیق کے لیے اپنے کارندے دوڑائے تو اسے خبر ملی کہ یہ معجزہ مکہ میں کسی نبی کے ہاتھوں رونما ہوا ہے ۔اس نبی کی آمد کی پیشین گوئی عرب میں پہلے سے ہی پائی جاتی تھی ۔چناچہ اس نے نبی ﷺ سے ملاقات کا پروگرام بنایا اوراپنے بیٹے کو اپنا قائم مقام بنا کر عرب کی طرف سفر پر روانہ ہوا۔وہاں اس نے نبی رحمت ﷺ کی بارگاہ میں حاضری دی اور مشرف بااسلام ہوا۔نبی کریم ﷺ کی ہدایت کے مطابق جب و ہ واپسی سفر پر گامزن ہوا تو یمن کے ظفر ساحل پراس نے وفات پائی ۔یمن میں اب بھی اس کا مقبر ہ موجودہے۔جس کو ”ہندوستانی راجہ کا مقبرہ“کہا جاتاہے اور لوگ اس کودیکھنے کے لیے وہاں کا سفر بھی کرتے ہیں۔
4
اسی معجزے کے رونما ہونے کی وجہ سے اورراجہ کے مسلمان ہونے کے سبب مالابار کے لوگوں نے اسلام قبول کیا تھا۔اس طرح انڈیا میں سب سے پہلے اسی علاقے کے لوگ مسلمان ہوئے ۔
5
بعدازاں انہوں نے عربوں کے ساتھ اپنی تجارت کو بڑھایا ۔نبی کریم ﷺ کی بعثت سے قبل عرب کے لوگ اسی علاقے کے ساحلوں سے گزر کر تجارت کی غرض سے چین جاتے تھے ۔
یہ تمام واقعہ اور مزید تفصیلات لندن میں واقع”انڈین آفس لائبیریری“کے پرانے مخطوطوں میں ملتاہے۔جس کاحوالہ نمبر (Arabic, 2807,152-173)ہے۔اس واقعہ کا ذکر محمدحمیداللہ نے پنی کتاب ”محمدرسول اللہ“میں کیا تھا۔ناسا کی یہ تصویر اور سائنسدانوں کے بیانات سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ قرآن کریم نے جس واقعہ کا ذکر آج سے 14سو سال پہلے کیا تھا وہ بالکل برحق ہے ۔ یہ ناصر ف قرآن مجید کی سچائی کی ایک عظیم الشان دلیل ہے بلکہ یہ ہمارے پیارے نبی ،امام الانبیا ءکی رسالت کی بھی لاریب گواہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ایمان کو اکمل و کامل کرے اور ہمیں قرآن وحدیث کے مطابق اپنے عملوں کو سنوارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

1116506

موضوعات:



کالم



شاہ ایران کے محلات


ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…

مشہد میں دو دن (آخری حصہ)

ہم اس کے بعد حرم امام رضاؒ کی طرف نکل گئے‘ حضرت…

مشہد میں دو دن (دوم)

فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…