پاکستان کا پانی روکنے والے بھارت پر بھی آفت ٹوٹ پڑی، آتھی آبادی کو پانی کے بحران کا سامنا،موسمی تبدیلی سے افغانستان کی موجیں ہوگئیں، عالمی بینک کے ماہرین کے حیرت انگیز انکشافات

30  جون‬‮  2018

نیویارک(نیوز ڈیسک)عالمی بینک نے ماحولیاتی تبدیلی پر اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ آئندہ 30 برس میں گرمی کی شدت میں اضافے اور بارش میں کمی آنے کے سبب انڈیا کی نصف آبادی کے معیار زندگی پر بہت برا اثر پڑے گا۔ملک کے وسط میں واقع مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ ریاستیں ماحولیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گی۔بھارتی ٹی وی کے مطابق عالمی بینک کی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پچھلے 60 برس میں درجہ حرارت میں خاصا اضافہ ہوا ہے اور اس میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیا کی نصف آبادی اسی خطے میں رہ رہی ہے جو 2050 تک ماحولیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے خطے ہیں۔دلچسپ پہلو یہ ہے کہ یہ خطے پسماندگی، کمتر میعار زندگی، سڑکوں کی کمی اور بازار تک رسائی کی دشواریوں سے پہلے ہی دو چار ہیں۔ درجہ حرارت بڑھنے سے ان خطوں کے میعار زندگی میں اور بھی کمی آئے گی۔تازہ ترین رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انڈیا کے ساحلی خطے اور پہاڑی علاقے جہاں قدرے ٹھنڈک ہوتی ہے وہاں حالات بہتر ہوں گے۔ موسمی تبدیلی سے نیپال اور افغانستان کو اپنے ٹھنڈے موسم کی وجہ سے فائدہ ہو گا۔ سب سے زیادہ نقصان بنگلہ دیش کو پہنچے گا جہاں موسمی تبدیلی کے سبب لوگوں کی آمدنی میں ساڑھے 14 فی صد تک کی کمی آنے کا خدشہ ہے۔انڈیا کی سب سے زیادہ متاثر ہونے والی ریاستوں میں چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش، راجستھان، اتر پردیش اور اورمہاراشٹر شامل ہیں۔ ان ریاستوں میں خشکی اور گرمی کے سبب لوگوں کی آمدنی میں نو فی صد تک کی کمی آ سکتی ہے۔ ان علاقوں میں پہلے ہی پانی کی کمی ہے اور موسمی تبدیلی سے یہاں زرعی پیداوار میں کمی آئے گی جبکہ صحت کے مسائل بڑھ جائیں گے۔آنے والے عشروں میں انڈیا کو اپنی تاریخ میں پانی کے سب سے طویل بحران کا سامنا ہے۔ ملک کے 60 کروڑ لوگوں کو پانی کی ہلکی یا شدید قلت کا سامنا ہو گا۔ اس سے ملک کی مجموعی داخلی پیداوار میں تقریباً تین فی صد تک کی کمی واقع ہو سکتی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ لوگوں کے تعلیم یافتہ ہونے، پانی کی فراہمی کے بہتر نظام اور غیر زرعی سیکٹر میں بہتر مواقع پیدا کرنے سے صورت حال میں تبدیلی آ سکتی ہے۔انڈیا میں موسمی تبدیلی، آبی آلودگی اور زیر زمین پانی کے حد سے زیادہ استعمال سے کئی علاقوں میں ابھی سے ہی پانی کی قلت شروع ہو گئی ہے۔ روایتی تالابوں، جھیلوں اور پانی کے قدرتی ذخیروں کے سوکھنے سے زیر زمین پانی کی سطح مسلسل نیچے جا رہی ہے۔ بعض رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ آئندہ 15 برس میں دہلی جیسے کئی بڑے شہروں میں زیر زمین پانی کی رسائی ختم ہو جائے گی۔ملک میں پیدائش کی شرح میں مسلسل کمی آ رہی ہے لیکن اس کے باوجود آبادی میں اضافے کا رحجان عشروں تک جاری رہے گا

جس سے پانی کی قلت برقرار رہے گی۔ تقریبا 20 برس قبل سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی نے پورے ملک میں پانی کی فراہمی سال بھر جاری رکھنے کے لیے ملک کے دریاؤں کو ایک دوسرے سے منسلک کرنے کا ایک بڑا منصوبہ پیش کیا تھا۔ لیکن واجپئی حکومت کے جانے کے بعد آنے والی حکومتوں نے اس منصوبے پر عمل نہیں کیا۔انڈیا میں ماحولیات کے ماہرین ایک عرصے سے پانی کی شدید قلت کے بارے میں حکومتوں اور پالیسی سازوں کو متنبہ کرتے آئے ہیں۔ پانی کے بارے میں لوگوں میں بیداری پیدا ہوئی ہے۔ مختلف حکومتوں نے صورت حال بہتر کرنے کے کے لیے بہت سے اقدامات بھی کیے ہیں لیکن موسمی تبدیلی کے چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لیے جنگی پیمانے پر اقدامات کرنے ہوں گے۔

موضوعات:



کالم



سرمایہ منتوں سے نہیں آتا


آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…