حملے والے دن گھر سے کیوں جلدی نکلی،ساتھ کون تھا؟ ،ملالہ کی ساڑھے 5سال بعد انکشافات سے بھرپور تحریر

14  اپریل‬‮  2018

لندن(سی پی پی)نوبیل انعام یافتہ پاکستانی طالبہ ملالہ یوسفزئی نے کہا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے ملک چھوڑ کر نہیں گئی تھیں لیکن انہوں نے پاکستان کا دورہ اپنی مرضی سے کیا ہے۔ملالہ یوسفزئی حال ہی میں ساڑھے 5 سال بعد چار روزہ دورے پر پاکستان آئی تھیں، اس دورے کے حوالے سے اپنے جذبات کا اظہار انہوں نے اپنی ایک بلاگ پوسٹ میں کیا۔20 سالہ ملالہ نے اپنے بلاگ میں لندن سے پاکستان کے سفر کا ایک ایک لمحہ تحریر کیا اور 5 سال قبل

کے مشکل وقت کو بھی یاد کیا۔اپنے گھر کا دورہ کے عنوان سے لکھے گئے بلاگ میں ملالہ نے سب سے پہلے 9 اکتوبر 2012 کو ملک چھوڑنے کے حالات کو بیان کیا ہے۔ملالہ نے لکھا کہ ‘جب میں نے ملک چھوڑا تو میری آنکھیں بند تھیں، میں برہنگھم کے ایک اسپتال میں انتہائی نگہداشت وارڈ میں زیر علاج تھی، اس وقت میرے ذہن میں یہی تھا کہ میں اپنے گھر میں ہوں’۔انہوں نے لکھا کہ مجھے وہ دن یاد ہے جب میں اپنے مطالعہ پاکستان کے پرچے کی تیاری کر رہی تھی اور اللہ سے دعا کر رہی تھی کہ میں کامیابی حاصل کروں۔ میں جلدی جلدی میں آدھا ادھورا ناشتہ کر کے اپنی دوست منیبہ کے ساتھ اسکول کے لیے نکل گئی تھی۔انہوں نے مزید لکھا، میں اپنی دوست کے ساتھ خوشی خوشی امتحان دے کر نکلی اور بس کا انتظار کرنے لگی، جس کے بعد وہ تاریک وقت آیا جب میں حملے کا نشانہ بنی۔ملالہ لکھتی ہیں کہ جب 31 مارچ 2018 کو وہ پاکستان جانے کے لیے تیاری کر رہی تھیں تو انہیں محسوس ہوا کہ جیسا بیتا ہوا کل ایک بار پھر ان کے سامنے آرہا ہے۔ملالہ نے لکھا، میں لندن سے دبئی اور دبئی سے اسلام آباد پہنچی تھی، جس کے بعد اسلا آباد سے ہیلی کاپٹر میں وادی سوات کا سفر کیا۔ اس دوران میں نے حسین وادی کے اونچے پہاڑ، ہریالی اور دلکش نظارے دیکھے اور ہر ایک منظر کو اپنے آئی فون میں قید کیا۔

انہوں نے لکھا، مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ میں ایک پرندے کی آنکھ سے سب مناظر دیکھ رہی ہوں۔ میں نے سوچا یہ سب تو میرے والدین نے بھی دیکھے ہوں گے، جب وہ مجھے سوات سے لے کر گئے تھے’، جس پر میرے والد نے جواب دیا کہ جب تمہاری آنکھیں بند تھیں تو ہماری بھی آنکھیں بند ہوچکی تھیں۔ملالہ کے مطابق جب مجھے 2012 میں گولی لگی تھی، اس کے بعد میری والدہ نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ دوبارہ اپنی بیٹی کے کمرے کو

دیکھ سکیں گی یا وہ دوبارہ مجھ سے کوئی خوشی یا غم شیئر کر سکیں گی، لیکن آج وہ اپنے گھر میں اپنی بیٹی کے کمرے میں تھیں اور بے حد خوش تھیں اور انہوں نے کہا ملالہ نے پاکستان آنکھ بند کرکے چھوڑا تھا لیکن اب آنکھیں کھول کر واپس لوٹی ہے۔انہوں نے اپنے بلاگ میں دورہ پاکستان کے دوران کی گئیں تمام ملاقاتوں کا احوال بھی شیئر کیا، جو انہوں نے اپنے عزیز و اقارب اور دوستوں کے ساتھ کیں۔ملالہ نے لکھا کہ تقریبا 500 سے زائد

رشتہ دار اور دوستوں نے ان کے گھر آکر ملاقات کی، دعائیں دی اور نیک تمناں کا اظہار کیا۔ملالہ نے سب کے ساتھ تصاویر بنوا کر یادیں سمیٹیں اور لکھا کہ اب وہ امید کرتی ہیں کہ ان سب سے ملنے کے لیے دوبارہ 5 سال کی نوبت نہ آئے۔انہوں نے لکھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ سوات میں کافی تبدیلی آچکی ہے، جہاں کبھی طالبان کا ہیڈ کوارٹر ہوتا تھا وہاں اب صرف درخت اور ہریالی ہے جسے دیکھ کر بیحد خوشی اور اطمینان ہوتا ہے،

یہاں اب پہلے سے زیادہ گھر ہیں اور اسکولوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ساتھ ہی ان کا کہنا تھا، لیکن اب بھی بہت کام کرنا باقی ہے کیونکہ نائیجیریا کے بعد پاکستان دوسرا ملک ہے جہاں 24 ملین بچیاں تعلیم سے محروم ہیں جب کہ بچوں کی تعداد 2.4 کروڑ ہے۔ملالہ کے مطابق ان کی خواہش ہے کہ پاکستان کا ہر بچہ اسکول جائے۔ملالہ کا مزید کہنا تھا کہ ملالہ فنڈز نے کچھ ہی عرصے میں پاکستان میں بچیوں کی تعلیم کے لیے 6 ملین ڈالرز اکٹھے کیے،

جس سے پہلا سیکنڈری اسکول شانگلا میں تعمیر کیا گیا، ملالہ فنڈز اپنی خدمات جاری رکھے گا۔ملالہ نے اپنے بلاگ میں اس امید کا بھی اظہار کیا کہ پاکستان میں بچیوں کی تعلیم کو سیاسی پارٹیاں بھی ترجیح دیں، خاص طور پر 2018 کے عام انتخابات میں اس پر خاص طور پر توجہ دی جائے۔آخر میں ملالہ نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سمیت آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور تمام حکام کا شکریہ ادا کیا اور پاکستان کے چار روزہ دورے پر خوشی کا اظہار کیا۔

موضوعات:



کالم



شاہ ایران کے محلات


ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…

مشہد میں دو دن (آخری حصہ)

ہم اس کے بعد حرم امام رضاؒ کی طرف نکل گئے‘ حضرت…

مشہد میں دو دن (دوم)

فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…