میانمار: روہنگیا کے خلاف نفرت پھیلانے پر بدھ مذہبی پیشوا کا فیس بک پیج ہٹا دیا گیا

28  فروری‬‮  2018

لند ن(آن لائن)فیس بک نے مسلمانوں کے خلاف غیر اخلاقی پوسٹ کرنے پر ‘بدھسٹ بن لادن’ کے نام سے تعبیر کیے گئے میانمار کے ایک مذہبی پیشوا کے پیج کو ہٹا دیا۔میانمار کی قوم پرست بدھسٹ تحریک کے مشہور رہنما ویراتھو فیس بک کو اپنے ہزاروں پیروکاروں کو روہنگیا کو ہدف بنا کر مسلمانوں کے خلاف حملوں پر اکسانے کے لیے پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کرتے تھے۔

فرا نسیسی خبررسا ں ادارے کو فیس بک کے ترجمان نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ویراتھو کے فیس بک پیج کو ہٹا دیا گیا ہے۔فیس بک کے ترجمان کا اپنے بیان میں کہنا کہ ‘ہماری برادری کے معیارات کسی بھی تنظیم یا افراد کو جرائم اور نفرت کی حوصلہ افزائی سے روکتے ہیں’۔ان کا کہنا تھا کہ ‘اگر کوئی شخص تسلسل کے ساتھ نفرت پھیلانے والے مواد کو جاری کررہا ہو تو ہم اس کے خلاف کارروائی کر سکتے ہیں، پوسٹ کرنے کی سہولت کو عارضی طور پر معطل کرنے اور آخری حد میں پیج کو ہٹادیا جاتا ہے’۔واضح رہے کہ 2017 میں میانمار کی ریاست رخائن میں حکومت اور بدھ مذہب کے شدت پسندوں کی جانب سے کارروائی کے نتیجے میں ہونے والی قتل و غارت کے بعد 7 لاکھ کے قریب روہنگیا مسلمان بے گھر ہوگئے تھے جس پر اقوام متحدہ کے علاوہ امریکا کی جانب سے بھی تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔ویراتھو کے فیس بک پیج کو گزشتہ ماہ چند رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا تھا جبکہ گزشہ سال انھوں نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ ان کے اکاؤنٹ کو عارضی طور پر 30 دن کے لیے بلاک کردیا گیا تھا کیونکہ ‘فیس بک پر مسلمانوں کا قبضہ ہے’۔میانمار میں 2013 میں آنے والی نئی حکومت کی ٹیلی کام سیکٹر میں چند اصلاحات کے بعد فیس بک کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے۔بدھ مذہب کی اکثریت رکھنے والے اس ملک میں فیس بک کی سہولت کو مذہبی پیشوا مسلمان مخالف رویے کو بڑھانے کے لیے ایک پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔

ان کی تقاریر کو میانمار کے جمہوریت کی منتقلی کے سفر کے لیے بھی خطرناک قرار دیا گیا تھا۔میانمار کی نوبل انعام یافتہ رہنما آنگ سان سوچی کے 2016 میں اقتدار میں آنے کے بعد ویراتھو کے گروپ کی حکومت ختم ہوئی تھی اور ان کی تقاریر پر ایک سال کی پابندی عائد کی گئی تھی۔مشہور میگزین ٹائمز کے صفحہ اول میں ‘بدھسٹ دہشت گرد کا چہرہ کے طور’ تصویر چھپنے کے باوجود ویراتھو میانمار میں بدستور بااثر ہیں۔

ینگون سے تعلق رکھنے والے ہم آہنگی کو بڑھانے کے لیے کام کرنے والے ایک کارکن تھیٹ سوے سن کا کہنا تھا کہ فیس بک کی جانب سے نفرت انگیز تقریر کو برداشت نہ کرنے کے حوالے سے علامتی پیغام دیا گیا ہے۔انھوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ پیج کو ہٹانے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘انھوں نے ان کا اکاؤنٹ ختم کردیا ہے لیکن ان کی ویڈیوز اور ان کی نفرت انگیز مذہبی تقاریر نہیں ہٹائیں اور اب بھی فیس بک میں موجود ہیں جس کو ان کے پیروکار پھیلا رہے ہیں’۔

موضوعات:



کالم



سرمایہ منتوں سے نہیں آتا


آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…