ہنگری بھی پناہ گزینوں کو سنبھالنے سے انکاری، دس ہزار کی آسٹریا آمد

20  ستمبر‬‮  2015

بڈا پسٹ(نیوز ڈیسک)مشرقِ وسطیٰ کے جنگ زدہ ممالک سے آنے والے پناہ گزینوں اور تارکینِ وطن کے مسئلے سے نمٹنے کے معاملے پر یورپی یونین کے رکن ممالک میں اختلافات برقرار ہیں۔ادھر آسٹریا نے کہا ہے کہ سنیچر کو اس کے ہاں ہنگری سے کم از کم دس ہزار پناہ گزینوں کی آمد متوقع ہے۔تارکینِ وطن کے معاملے پر مختلف حکومتوں کے درمیان اختلافات کی وجہ سے یورپ میں شمال مشرق کے راستے سے داخل ہونے والوں کو ایک ملک کی سرحد سے دوسرے ملک کی سرحد کی جانب دھکیلا جا رہا ہے۔پناہ کی تلاش میں آنے والے ان افراد میں سے زیادہ تر کا تعلق شام، افغانستان اور عراق سے ہے اور وہ جرمنی اور سیکنڈے نیویا کے ممالک میں پناہ لینے کے خواہشمند ہیں۔آسٹریا کی پولیس کا کہنا ہے کہ سنیچر کو رات بارہ بجے سے شام تک نو ہزار کے قریب پناہ گزین ہنگری سے سرحد عبور کر کے آسٹریا پہنچے اور دن کے اختتام تک یہ تعداد دس ہزار تک پہنچ گئی ہے۔آسٹریا پہنچنے والوں میں سے پانچ ہزار کے قریب نے گراز نامی شہر کے قریب سے سرحد عبور کی جبکہ چار ہزار افراد دارالحکومت ویانا کے قریب واقع نکلزڈروف کے سرحدی راستے سے آسٹریا میں داخل ہوئے۔یہ وہ پناہ گزین ہیں جو سربیا سے کروئیشیا میں داخل ہوئے تھے لیکن وہاں کے حکام نے یہ کہتے ہوئے انھیں ہنگری کی جانب روانہ کر دیا تھا کہ ان کا ملک ان 20 ہزار پناہ گزینوں کا انتظام نہیں کر سکتا جو بدھ کے بعد سے وہاں آئے ہیں۔ہنگری نے کروئیشیا پر الزام لگایا تھا کہ وہ ان پناہ گزینوں کی رجسٹریشن نہ کر کے یورپی یونین کے قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے تاہم اب بی بی سی کو بتایا گیا ہے کہ خود ہنگری نے بھی ان افراد کی رجسٹریشن نہیں کی اور انھیں آسٹریا کی جانب بھیج دیا گیا۔آسٹریا کے علاقے برگن لینڈ کی پولیس کے نائب سربراہ کرسچیئن سٹیلا نے آسٹریلوی ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہنگری کی جانب سے اتنی بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کی آمد کے سلسلے میں بوقت خبردار نہیں کیا گیا۔ملک کے وزیرِ داخلہ جوہانا میک لیٹنر نے بھی ہمسایہ ممالک پر یورپی یونین کے قوانین کی پاسداری نہ کرنے کا الزام عائد کیا ہے اور خدشہ ظاہر کیا ہے کہ کروئیشیا سے مزید پناہ گزین سلووینیا کے راستے آ سکتے ہیں۔ہنگری سے آسٹریا پہنچنے والے ایک پناہ گزین نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ ’مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ میں نے نیا جنم لیا ہے۔ مجھے فرق نہیں پڑتا کہ کتنی تاخیر ہو اور مجھے یہاں دو دن بھی رکنا پڑے، اہم بات یہ ہے کہ میں بالاخر یہاں پہنچ گیا ہوں اور محفوظ ہوں۔‘ادھر ہنگری اور کرؤئیشیا کے درمیان پناہ گزینوں کے معاملے پر تناؤ میں مزید اضافہ ہوا ہے۔کروئیشیا کے وزیرِ اعظم زوران میلانووچ نے تسلیم کیا ہے کہ ان کے ملک کا پناہ گزین بھیجنے کے بارے میں ہنگری سے کوئی معاہدہ نہیں۔انھوں نے کہا کہ ’ہم نے انھیں زبردستی بھیجا اور ہم یہ عمل دہراتے رہیں گے۔‘ہنگری کے وزیرِ خارجہ پیٹر زیجارتو نے کروئیشیا کے وزیرِاعظم کے اس اقدام کو ’نہایت افسوسناک‘ قرار دیا۔ان کا کہنا تھا کہ ’ایمانداری سے پناہ گزینوں کو سہولت فراہم کرنے کی بجائے انھوں نے پناہ گزینوں کو سیدھا ہنگری بھیج دیا۔ یہ کس قسم کی یورپی یکجہتی ہے؟‘ہنگری نے کروئیشیا پر پناہ گزینوں کی رجسٹریشن نہ کرنے کا الزام بھی لگایا تھا اور کہا تھا کہ وہ تمام پناہ گزینوں کو رجسٹر کرنے کے بعد ہی شمالی یورپ کی جانب جانے کی اجازت دے گا۔تاہم ہنگری سے آسٹریا پہنچنے والے کئی پناہ گزینوں نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ہنگری میں بھی ان کا اندراج نہیں کیا گیا اور بسوں میں بٹھا کر سرحد پر لا کر یہ کہتے ہوئے اتار دیا گیا کہ وہ ریلوے لائن عبور کر کے آسٹریا چلے جائیں۔ہنگری کی حکومت نے پناہ گزینوں کے اندراج نہ کیے جانے کی خبر کی تصدیق نہیں کی لیکن یہ ضرور کہا کہ رجسٹریشن کی پالیسی موجود ہے لیکن یہ کام زبردستی نہیں کیا جا سکتا۔حکام جہاں کروئیشیا سے آنے والے پناہ گزینوں کو آگے روانہ کر رہے ہیں وہیں ہنگری اور کروئیشیا کی سرحد کے ساتھ باڑ کی تنصیب کا عمل بھی تیزی سے جاری ہے۔ہنگری پہلے ہی سربیا سے متصل اپنی سرحد کو باڑ لگا کر بند کر چکا ہے۔پناہ گزینوں کے بحران سے احسن طریقے سے نہ نمٹ پانے پر یورپی یونین کو کڑی تنقید کا سامنا ہے۔ حال ہی میں اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے ہنگری میں پناہ گزینوں سے روا رکھے جانے والے سلوک کو ناقابلِ قبول قرار دیا تھا۔مرکزی یورپ میں موجود حکومتیں اپنی سرحدوں کی حفاظت نہ کر سکنے کی وجہ سے ایک دوسرے پر بھی شدید تنقید کر رہی ہیں اور زیادہ تر حکومتیں جرمنی پر الزام لگا رہی ہیں کہ اسی نے سب سے پہلے سفر کرنے کے لیے تارکینِ وطن کی حوصلہ افزائی کی تھی۔اس مسئلے پر آئندہ ہفتے یورپی یونین میں دو اہم اجلاس بھی منعقد ہوں گے۔جہاں تنظیم کے رکن ممالک کے وزرائے داخلہ منگل کو بلائے گئے ہنگامی اجلاس میں مجوزہ کوٹے کے تحت پناہ گزینوں کی باز آباد کاری پر اتفاقِ رائے کی ایک اور کوشش کریں گے وہیں بدھ کو اسی سلسلے میں یورپی ممالک کے سربراہان کا اجلاس بھی طلب کیا گیا ہے۔13 جولائی کو ہنگری ہمسایہ مک سربیا سے متصل سرحد پر خاردار باڑ لگانے کا آغاز کیا۔19 اگست کو جرمنی نے کہا کہ وہ متوقع طور پر رواں برس میں پناہ کے حصول کے لیے آٹھ لاکھ تاکینِ وطن کی درخواستیں وصول کرے گا۔27 اگست کو آسٹریا میں ایک ٹرک میں سے 71 تارکینِ وطن کی لاشیں برآمد ہوئیں۔02 ستمبر کو تین سالہ شامی کرد بچے کی ترکی کے ساحل پر موجود لاش نے تارکینِ وطن کے مسئلے کو دنیا کے سامنے پیش کیا۔12 ستمبر کو ہنگری میں 4000 سے زائد تارکینِ وطن داخل ہوئے۔13 سمتبر کو جرمنی نے عارضی باڈر کنٹرول متعارف کر وایا۔15 ستمبر کو ہنگری نے سربیا سے اپنے ملک میں داخل ہونے والے تارکینِ وطن کے لیے سخت قانون تشکیل دیا جس کی وجہ سے ہزاروں تارکینِ وطن نے کروئیشیا کا راستہ اپنایا۔18 سمتبر کو کروئیشیا نے تارکینِ وطن کو ہنگری کی جانب بھجوایا تاہم ہنگری نے اس کی سرحد پر بھی نئی باڑ لگانے کا آغاز کر دیا۔



کالم



سرمایہ منتوں سے نہیں آتا


آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…