گھانا میں معاوضہ لے کر جنازے پر رونے والوں کی مقبولیت میں اضافہ

9  جولائی  2018

گھانا (مانیٹرنگ ڈیسک) افریقا کے اکثر ممالک میں جنازوں کی بڑی اہمیت ہوتی ہے اور گھانا میں جنازوں پر غم زدہ اور رونے والوں سے معاشرے میں اہمیت بڑھتی ہے اسی بنا پر گھانا میں جنازوں پر پیشہ ور رونے والوں کو بلوایا جاتا ہے۔ اس رونے دھونے کو دیکھتے ہوئے لوگ اس بات کی تعریف کرتے ہیں کہ مرنے والے سے اہلِ خانہ کو کتنی محبت تھی اور اسی بنا پر اب رقم دے کر جعلی آنسو بہانے والوں کو مدعو کیا جاتا ہے۔

یعنی اب گھانا میں جنازوں پر آہ و بکا اور آنسو بہانا ایک باقاعدہ کاروبار بن چکا ہے۔ گھانا کی ایک خاتون ایمی ڈوکلی کہتی ہیں کہ بہت سے لوگ اپنے عزیزوں اور پیاروں پر کوشش کے باوجود آنسو نہیں بہاسکتے اسی لیے وہ ہم پر انحصار کرتے ہیں۔ ڈوکلی خود بھی بیوہ ہیں اور انہوں نے رونے کےلیے بیواؤں کا ایک گروپ بنارکھا ہے۔ لیکن ہر جگہ رونا آسان بھی نہیں ہے اور اسی لیے وہ آنسو بہانے کا معاوضہ لیتی ہیں، اگر جنازہ بڑا ہوتو وہاں رونے کے پیسے بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ جنازوں پر زیادہ سے زیادہ رونے والے بلوائے جاتے ہیں اور دیگر رسومات بھی ادا کی جاتی ہیں۔ اسی لیے افریقا کے کئی ممالک پر جنازوں پر بہت رقم خرچ ہوتی ہے جو 15 سے 20 لاکھ روپے تک بھی پہنچ جاتی ہے۔ علاوہ ازیں جنازے اور تدفین کی مشہوری کےلیے اشتہارات دیئے جاتے ہیں اور بڑے بڑے بورڈ لگائے جاتے ہیں۔ مرنے والے کےلیے مہنگے اور انوکھے تابوت بھی بنائے جاتے ہیں۔ گھانا میں ’جنازوں پر رونے والی ایسوسی ایشن‘ میں انتہائی ذہین رونے والے افراد بھرتی کیے گئے ہیں جو ایسے ٹسوے بہاتے ہیں کہ غمزدہ خاندان ان پر پیسے نچھاور کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ بلکہ بسا اوقات تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ صحت مند لوگ بھی وصیت کرجاتے ہیں کہ ان کے مرنے پر رونے والوں کا یہی گروپ بلایا جائے۔ رونے کے مختلف انداز سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ رونے کے مختلف انداز کی فیس بھی مختلف ہوتی ہے۔ کچھ لوگ صرف آنسو بہاتے اور سسکیاں بھرتے ہیں، کچھ لوگ روتے ہوئے چیختے اور چلاتے ہیں جس کے زیادہ پیسے ہوتے ہیں۔ جبکہ تیسرا گروپ تو روتے روتے گرجاتا ہے اور زمین پر لوٹ پوٹ ہونے لگتا ہے۔ کچھ ماہر رونے والے روتے وقت الٹیاں کرنے کی اداکاری بھی کرتے ہیں۔

موضوعات:



کالم



شاہ ایران کے محلات


ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…

مشہد میں دو دن (آخری حصہ)

ہم اس کے بعد حرم امام رضاؒ کی طرف نکل گئے‘ حضرت…

مشہد میں دو دن (دوم)

فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…