ہمارے کھانوں میں کس ’خطرناک چیز‘ کے ذرات شامل ہوتے ہیں؟

25  اکتوبر‬‮  2018

برطانیہ(مانیٹرنگ ڈیسک) سائنس دانوں کو پہلی مرتبہ اس بات کا سراغ ملا ہے کہ انسان غذا کے ساتھ معدے میں پلاسٹک کے معمولی ذرات بھی اتار لیتے ہیں۔ برطانیہ اور دیگر ممالک کے شہریوں پر کی گئی تحقیق کے دوران حاصل کیے گئے نمونوں میں پلاسٹک کے معمولی ذرات کی 9 مختلف اقسام پائی گئیں۔ ویب سائٹ ایم ایس این کی رپورٹ کے مطابق ماہرین کا ماننا ہے کہ پلاسٹک کے ذرات

انسانوں کے اندر مدافعتی نظام کو نقصان پہنچانے اور وائرس پھیلانے کا باعث ہوسکتے ہیں۔ اسکائی میڈیا کی جانب سے دو سال قبل پلاسٹک کے حوالے سے مہم اوشین ریسکیو شروع کی تو اس حوالے سے خطرات کی تصدیق ہوئی جس کو اس لیے شروع کیا گیا تھا کہ پلاسٹک کے معمولی ذرات کھانے سے آبی حیات اور مچھلی کے خاتمے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ تحقیق کے لیے حاصل کیے گئے نمونوں میں پائے گئے ذرات 50 اور 500 مائیکرومیٹر کے درمیان تھے جن میں سے عام اقسام میں پولی پروپیلین (پی پی) اور پولی تھیلین ٹیریفتھلیٹ (پی ای ٹی) شامل تھیں۔ سائنس دانوں کے مطابق نمونوں سے حاصل کیے گئے نتائج سے پتہ چلا کہ پیشاب میں پلاسٹک کے 10 گرام کے 20 معمولی ذرات پائے گئے۔ آسٹریا کی میڈیکل یونیورسٹی آف ویانا کے معروف محقق ڈاکٹر فلپ شوابے کا کہنا تھا کہ ‘تشویش یہ ہے کہ اس سے ہمارے لیے اور خاص کر معدے کے امراض میں مبتلا افراد کے لیے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں’۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘جانوروں میں پلاسٹک کی موجودگی کے حوالے سے تحقیق میں پتہ چلا کہ یہ ذرات انتڑیوں میں پائے جاتے ہیں، پلاسٹک کے معمولی ذرات گردش خون میں شامل ہوسکتے ہیں، یہ ذرات نظام تنفس اور جگر تک بھی پہنچ سکتے ہیں’۔ ڈاکٹر فلپ شوابے نے کہا کہ ‘اب ہمیں انسان کے اندر بھی پلاسٹک کے ذرات کے شواہد مل چکے ہیں اور اس کے انسانی صحت پر اثرات کے حوالے سے جاننے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے’۔

خیال رہے کہ تحقیق سے تاحال اس بات کا سراغ نہیں لگایا جاسکا کہ یہ پلاسٹک کے ذرات دراصل آتے کہاں سے ہیں۔ جن افراد پر تحقیق کی گئی وہ تمام پلاسٹک میں لپٹی ہوئی خوراک اور پینے کی چیزیں استعمال کرتے تھے، ان میں سے کوئی بھی سبزی خور نہیں تھا تاہم 6 افراد مچھلی کھاتے تھے۔ ایک اندازے  کے مطابق دنیا بھر میں پیدا ہونے والے پلاسٹک کا 5 فیصد حصہ سمندر میں جا ملتا ہے ۔

جہاں یہ بتدریج پگھلنا شروع ہوتا ہے اور آبی حیات اس کو کھاتی اور ہضم کرلیتی ہیں۔ محقیقین نے خدشے کا اظہار کیا کہ خوراک کی پلاسٹک میں پیکنگ اور اشیا کی تیاری کے لیے استعمال ہونے والے طریقہ کار سے پلاسٹک کے ذرات انسان کے اندر داخل ہوسکتے ہیں۔ جہاں اس تحقیق پر ماہرین کو تشویش ہے وہی کئی ماہرین اس کو زیادہ خطرناک نہیں سمجھتے ہیں اور ان کے مطابق یہ

عمل ہوتا رہا ہے۔ یاک یونیورسٹی کے ماہر ماحولیات پروفیسر الیسٹر بوکسل کا کہنا تھا کہ ‘میں ان نتائج سے حیران یا پریشان نہیں ہوں، پلاسٹک کے معمولی ذرات نلکے کے پانی، بوتل کے پانی، مچھلی مسل ٹشوز اور دیگر پینے کی اشیا میں شامل ہوتی ہیں’۔ خیال رہے کہ یہ تحقیق برطانیہ کے وزیر ماحولیات مائیکل گوف کی جانب سے حکومتی سطح پر پلاسٹک اسٹرا اور کاٹن بڈز کی تقسیم اور فروخت پر پابندی کے لیے مہم شروع کرنے کے لیے مشاورت کے آغاز کے چند گھنٹوں بعد سامنے آئی ہے۔

موضوعات:



کالم



سرمایہ منتوں سے نہیں آتا


آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…