60کی دہائی کو ترقی کا دور کہنے والے عمران خان آنکھیں کھولو! 1958سے 1969کے دوران جنرل ایوب نے اپنے دور میں کیا کیا گل کھلائے ؟حامد میر کے اپنے کالم میں چشم کشا انکشافات

10  جنوری‬‮  2019

وزیر اعظم عمران خان ایک سے زائد بار ساٹھ کی دہائی کو ترقی کا دور قرار دے چکے ہیں۔اسی تناظر میں معروف صحافی حامد میر اپنے آج کے کالم ’’کرائے کی بندوق‘‘میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔ وہ جب بھی ساٹھ کی دہائی کا ذکر کرتے ہیں تو ہماری نظروں کے سامنے جنرل ایوب خان کی تصویر گھومنے لگتی ہے جو 1958ء سے 1969ء تک پاکستان کے حکمران تھے۔ جنرل ایوب خان پاکستان کے پہلے فوجی ڈکٹیٹر تھے جنہوں نے 1956ء کا پارلیمانی آئین منسوخ کر کے 1962ء میں صدارتی آئین نافذ کیا۔

جنرل ایوب خان کے دور میں نافذ کئے گئے صدارتی نظام نے مشرقی اور مغربی پاکستان کے رشتے کو کمزور کیا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس دور میں تربیلا اور منگلا ڈیم بنائے گئے اس لئے یہ ترقی کا دور تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ جنرل ایوب خان نے 1960ء میں سندھ طاس معاہدے کے ذریعہ پاکستان کے تین دریائوں راوی، ستلج اور بیاس کا پانی بھارت کے کنٹرول میں دیدیا۔ ان دریائوں کا پانی بھارت کے کنٹرول میں جانے سے پاکستان کو پانی کی کمی کے بحران کا سامنا تھا لہٰذا زرعی استعمال کے لئے دریائے سندھ اور جہلم کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے منصوبے بنائے گئے جن میں تربیلا ڈیم اور منگلا ڈیم بھی شامل تھے۔ بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کے نتیجے میں آج بھی پاکستان کو جہلم اور چناب کے پانی سے محروم کیا جا رہا ہے۔ جس دور کو ترقی کا دور کہا جاتا ہے اُس دور کی تصویر دیکھنا ہو تو عمران خان راوی، ستلج اور بیاس کو دیکھ لیں جو دریائوں کے بجائے گندے نالے بن چکے ہیں۔عمران خان جب بھی ساٹھ کی دہائی کو ترقی کی دہائی قرار دیتے ہیں تو یہ گمان گزرتا ہے کہ شاید وہ بلاواسطہ پاکستان میں صدارتی نظام کی حمایت کر رہے ہیں۔ اس ’’بدگمانی‘‘ کی وجہ اُن کے کچھ قریبی ساتھیوں کی طرف سے نجی گفتگوئوں میں پارلیمانی نظام کی مخالفت اور کچھ وزراء کی طرف سے کھلے عام 18ویں ترمیم کے خلاف رونا دھونا ہے۔

اس ’’بدگمانی‘‘ کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ میں خود اپنے گناہ گار کانوں سے احمد شجاع پاشا (آئی ایس آئی کے سابق سربراہ) کی زبانی یہ سُن چکا ہوں کہ پاکستان اور پارلیمانی نظام ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ اپنی اگلی نسل کو بلاول اور حمزہ شہباز کا غلام نہیں بننے دیں گے اور پھر اس ناچیز نے اُن کے ساتھ اختلاف رائے کے سنگین نتائج بھی بھگتے۔ عمران خان سے گزارش ہے کہ وہ ساٹھ کی دہائی کے بارے میں اپنے موقف پر نظرثانی کریں ۔

کیونکہ اس دہائی کی تعریف کا مطلب جنرل ایوب خان کی تعریف ہے اور جنرل ایوب خان کی تعریف کا مطلب صدارتی نظام کی تعریف ہے اور میری ناچیز رائے میں صدارتی نظام کی حمایت کا مطلب پاکستان کو کمزور کرنا ہے۔ساٹھ کی دہائی ترقی کی دہائی ہوتی تو یہ ترقی صرف مغربی پاکستان میں نہیں بلکہ مشرقی پاکستان میں بھی نظر آتی جو اب بنگلہ دیش بن چکا ہے۔ جنرل ایوب خان نے ایک طرف بنگالیوں کو ان کے حقوق نہ دیئےتو دوسری طرف بلوچوں کے خلاف فوجی آپریشن شروع کیا۔

اُنہوں نے قائد اعظمؒ کے ساتھی اور تحریک پاکستان کے رہنما حسین شہید سہروردی پر غداری کا مقدمہ بنا کر اُنہیں جیل میں ڈال دیا۔ سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس محمد منیر کو ایوب خان نے اپنا وزیر قانون بنایا۔ جسٹس منیر اپنی کتاب ’’فرام جناح ٹو ضیاء‘‘ میں واضح طور پر لکھ چکے ہیں کہ انہوں نے 1962ء میں ایوب خان کی تائید سے قومی اسمبلی کے بنگالی ارکان سے پاکستان سے علیحدہ ہونے یا کنفیڈریشن بنانے کے بارے میں مذاکرات شروع کئے تو بنگالی لیڈر رمیض الدین نے کہا ہم اکثریت میں ہیں اور ہم پاکستان ہیں۔

اگر علیحدہ ہونا ہے تو تم پاکستان سے علیحدہ ہو جائو۔ عمران خان کو جسٹس محمد منیر کی یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہئے اور اگر وزیر اعظم آفس کی لائبریری میں یہ کتاب موجود نہ ہو تو یہ خاکسار مذکورہ کتاب اُنہیں مہیا کر سکتا ہے۔ جو لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ شیخ مجیب الرحمان بہت پہلے سے بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان توڑنا چاہتے تھے وہ جسٹس منیر کی کتاب پر کیوں خاموش رہتے ہیں؟ کیا یہ کتاب اس تلخ حقیقت کو سامنے نہیں لاتی کہ پاکستان توڑنے کی سازش تو خود وہ صدر صاحب کر رہے تھے جن کے دور کو ترقی کا دور قرار دیا جاتا ہے؟

ساٹھ کی دہائی کو ترقی کا دور قرار دینے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اسی دور میں ایک صدارتی الیکشن ہوا تھا۔ جنوری 1965ء میں ہونے والے اس صدارتی الیکشن میں محترمہ فاطمہ جناح نے ایوب خان کا مقابلہ کیا اور یہ حقیقت سب جانتے ہیں کہ شیخ مجیب الرحمان، مولانا مودودی، خان عبدالغفار خان سمیت بہت سے ’’غدار‘‘ قائد اعظمؒ کی بہن کا ساتھ دے رہے تھے لیکن جنرل ایوب خان نے دھاندلی اور دھونس کے ذریعہ قائد اعظمؒ کی بہن کو ہرا دیا۔ ساٹھ کی دہائی پاکستان میں احتساب کے نام پر انتقام، دھونس، دھاندلی اور کرپشن کی دہائی تھی۔

جی ہاں! خزانہ بھرا بھرا نظر آتا تھا کیونکہ جنرل ایوب خان نے سابقہ سوویت یونین کے مقابلے پر امریکہ کا ساتھ دیا۔ پشاور کے قریب بڈھ بیر میں امریکہ کو فوجی اڈہ دیا۔ یہی وہ دور تھا جب پاکستان کو امریکہ کے ہاتھ میں کرائے کی بندوق بنا دیا گیا۔ آج عمران خان کہتے ہیں کہ ہم آئندہ کرائے کی بندوق نہیں بنیں گے اور یہ کلمۂ حق کہنے پر میں اُنہیں سلام پیش کرتا ہوں لیکن پاکستان کو کرائے کی بندوق جنرل ایوب خان نے بنایا تھا لہٰذا عمران خان اُس دور کو ترقی کا دور کہنا بند کر دیں اور یوٹرن لے لیں یہ یوٹرن اُن کے لئے اچھا ہی ثابت ہو گا۔

موضوعات:



کالم



شاہ ایران کے محلات


ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…

مشہد میں دو دن (آخری حصہ)

ہم اس کے بعد حرم امام رضاؒ کی طرف نکل گئے‘ حضرت…

مشہد میں دو دن (دوم)

فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…